Maktaba Wahhabi

116 - 195
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’یہی توبات ہے کہ تم ناراضگی کا اظہار نہیں ہونے دیتی مگر ہم پھر بھی پہچان لیتے ہیں ۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:’’قربان جاؤں !! ذرا مجھے بھی پتہ دیجیے کہ آپ کو کس طرح میری ناراضگی کا پتہ چل جاتا ہے؟۔‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عائشہ!جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو اور قسم(اٹھانے)کا کوئی موقع آئے تو کہتی ہو:’’مجھے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رب کی قسم!‘‘اور جب کوئی وجہ پرخاش(ناراضگی) ہوتو پھر یوں کہتی ہو:’’مجھے ابراہیم علیہ السلام کے رب کی قسم!۔‘‘ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہنس پڑیں اور کہا:’’واللہ! آپ نےخوب پہچانا۔‘‘[1] محبت کےاسباب اگرچہ آپ کوبیویوں سے محبت تو یکساں ہی تھی۔مگرپھر بھی یہ چیز اپنے بس کی نہیں ہوتی۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بعض بیویاں اپنے محاسن اور کمالات کی وجہ سے زیادہ توجہ کی موجب بن جاتی تھیں ۔اور لطف یہ کہ ان میں ہر ایک یہ سمجھتی تھی کہ میری طرف ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ زیادہ ہے۔ واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو زیادہ چاہتے تھےاور آپ کا یہچاہنا ان کے حسن وجمال یا کم سنی کی وجہ سے نہ تھا جیسا کہ بعض نابکارکہتے ہیں ۔بلکہ ان کے ذاتی کمالات،تفقہ فی الدین،ضبط علم اور ذہانت وغیرہ پر موقوف تھا۔اور چونکہ یہ خوبیاں ان سے پہلے حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی ذات میں موجود تھیں ۔اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان بھی سے زیادہ انہیں چاہتے تھے۔یہاں تک کہ ان کی وفات کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر ان کا ذکر کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں نم ہوجاتیں ۔ان کی سہیلیوں کی عزت کرتے انہیں اکثر تحائف بھیجا کرتے،[2]کہ یہ بھی خدیجہ رضی اللہ عنہا کی یادگار ہے۔
Flag Counter