اب ہمیں کیا ڈر رہا ہے۔ہم نے تو وہ زمانہ دیکھا ہے۔جب ہم میں سے کوئی اکیلا ہی نماز پڑھا کرتا تھا اور اسے ہر طرف سے دشمنوں کا خوف لگا رہتا تھا۔[1]
افسوس ہےکہ اس روایت سے یہ پتہ نہیں لگتا کہ یہ شمارکس سنہ میں ہوا تھا۔صحیح بخاری کی دیگر روایات سے یہ تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ تیسری مردم(مسلم)شماری تھی۔پہلی دفعہ کے شمار میں مسلمانوں کی تعداد 500 اور دوسری میں 600 سواور 700 کے درمیان تھی۔
تعلیماتِ رسالت
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پاک،اعتقادات ،عادات۔عبادات،مہلکات،منجیات،احسانیات کے متعلق ایک بحرِ ناپیدا کنار ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی افضلیت اور اسلام کی برتری کا مدار اسی تعلیم پر ہے۔
خدا کا حق بندوں پر بندوں کا حق خدا پر
’حَقُّ اَللّٰہ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوہ، وَلايُشْرِكُوا بِہ شَيْئًا،وَحَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اَللّٰہ اِذا فَعَلوا أَنْ لا يُعَذِّبَھم‘[2]
’’اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ بندے اسی کی عبادت کریں اور کسی چیز کوبھی اس کا شریک نہ بنائیں ۔ بندوں کا حق اللہ پر یہ ہے کہ جب وہ اللہ کاحق اداکریں تب وہ انہیں عذاب نہ دے۔‘‘
رحمتِ الٰہیہ کا بیان
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:خدا نے اس کتاب میں جو اس کے پاس عرش پر ہے ،یہ لکھ رکھا ہے۔’ إِنَّ رَحْمَتِي غَلَبَتْ غَضَبِي ‘’’ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔‘‘[3]
|