جاسکتاہے کہ فتح مکہ کے موقع پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں بحیثیت فاتح کےداخل ہوئے تو فضالہ اس وقت بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے درپے تھے۔
حافظ ابن ِکثیر رحمہ اللہ ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ فضالہ نے اپنے کپڑوں میں تلوار چھپالی تاکہ موقع ملنے پر اپنے ناپاک ارادے کو پورا کرسکے اور دعویٰ کیا کہ میں مسلمان ہوتا ہوں ،تاکہ مسلمان انہیں چھوڑ دیں پھر فضالہ بیت اللہ میں مطاف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے جہاں رسولِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم طواف ِبیت اللہ فرمارہے تھے،جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضالہ کے پاس پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: فضالہ! کہا: جی فضالہ ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا دل میں کیا ارادہ رکھتے ہو؟ جواب دیا : کچھ نہیں ۔ بس اللہ کا ذکر رہا ہوں ۔ جواب سن کر نبی ِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم مسکرادئےاور کہا :استغفار کروفضالہ ! اور فضالہ کے سینے پراپنا ہاتھ رکھ دیا اور فضالہ کے دل کی دنیا ہی بدل گئی ۔ فضالہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : اللہ کی قسم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھایا بھی نہیں تھا کہ میرے نزدیک تمام مخلوقات میں سب سے محبوب نبی کریم بن چکے تھے۔
سبحان اللہ ! ایک انسان جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے درپے ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ محبت اور شفقت کا معاملہ فرمائیں !ایسا صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں ہی ممکن ہے ۔[1]
اسی طرح عرب کے وہ قبائل جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سوشل بائیکاٹ کیا اور تین سال تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبِ ابی طالب کی گھاٹی میں محصو رہنے پر مجبورکیافتح مکہ کے موقع پر ان کے لئے ایسی مثال قائم کردی کہ جس کی نظیر تاریخ اسلامی تو کیا تاریخ انسانی میں نہیں مل سکتی۔
نبی الرحمۃ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت کی ایک اور بے نظیر مثال ہمیں اس واقعے سے بھی ملتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت پر مامور ایک یہودی بچہ بیمار ہوگیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بچے کی تیمار داری کے لئے تشریف لے گئے ۔ اللہ اکبر!
اسلامی ریاست کا سربراہ ، ریاست مدینہ کا حکمران اپنے ایک غیر مسلم خادم کی عیادت کو جارہا ہے ۔
انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حالت میں کہ جبکہ اس بچے پر نزاع کا عالم تھا اسے
|