Maktaba Wahhabi

85 - 195
کرتے۔اور اگر ایسا کرتے تو یقیناً وہ فوجی نقطہ نگاہ سے حق بجانب بھی ہوتے۔مگر نہیں نہیں ،اس فاتح عرب صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں ہونے دیا بلکہ اس دانائی اور حکمت سے مکہ فتح کیا کہ آج دنیا کے بڑے بڑے فاتح اس پر رشک کررہے ہیں ۔ جب دشمن کی قوت ٹوٹ چکی اور وہ پورے طور پر مغلوب ہوگیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ شہر میں داخل ہوکر اپنا پورا تسلط اور قبضہ جمالے۔اور مندرجہ ذیل احکام کو ضرور ملحوظ رکھیں : 1. جو شخص ہتھیار پھینک دے،اس کو قتل نہ کیا جائے۔ 2.جو شخص خانہ کعبہ کے اندر پہنچ جائے،اسے قتل نہ کیا جائے۔ 3.جوشخص اپنے گھر کے اندر بیٹھ جائے،اسے قتل نہ کیا جائے۔ 4.جو شخص ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے گھر چلا جائے،اسے قتل نہ کیا جائے۔ 5.کو شخص حکیم بن حزام کے گھر چلا جائے،اسے قتل نہ کیا جائے۔ 6.جو لوگ بھاگ جائیں ،ان کا تعاقب نہ کیا جائے۔ 7.بوڑھوں ،بچوں ،عورتوں اور زخمیوں كو قتل نہ كیا جائے۔ 8.قیدیوں کو بھی قتل نہ کیا جائے۔[1] ان ہدایات پر غور کیجیےاور بتلائیے کہ کیا یہ نصائح وہدایات کسی ایسے فاتح کی طرف سے جاری ہوسکتی ہیں ،جس کا دل جوش انتقام سے لبریز ہو؟اور کیا آج تک کسی فاتح،کسی حملہ آور اور کسی ایسے شخص کی طرف سے فوج کو ہدایات جاری ہوئی ہیں ،جو تیرہ سال تک مسلسل ظلم وستم کا نشانہ بنایا گیا ہو؟یقیناً ایک مثال بھی تاریخ عالم میں ایسی پیش نہیں کی جاسکتی!! یہ آٹھ ہدایات نہیں بلکہ رحمت درافت کے آٹھ وسیع اور شاندار دروازے تھے،جن میں ہر ایک خاطی اور گنارہ گار،ہر ایک مجرم اور سیاہ کارداخل ہوسکتا تھا،چنانچہ ایسے ہی ہوا۔ بڑے بڑے بدبخت اورنسلی دشمن بھی رہائی پاگئے۔
Flag Counter