Maktaba Wahhabi

76 - 195
کون خبر لا کردے گا؟ (وہ میدانِ جنگ میں کس حال میں ہیں )۔ ایک صحابی (سیدنا زید بن ثابت )نے عرض کی: یارسول اللّٰہ ! میں خبر لاتا ہوں ۔ چنانچہ وہ گئے اور لاشوں میں سعد بن ربیع کو تلاش کرنے لگے۔وہ زخموں سے چور زندگی کے آخری سانس میں نظر آئے۔صحابی نے کہا: مجھے رسول اللّٰہ نے تمہاری خبر لانے کے لیے بھیجا ہے ۔ اُس نے کہا: رسول اللّٰہ سے میرا سلام کہنا اور میری قوم سے کہنا: ’’یاد رکھو! اگر تم میں سے ایک آدمی بھی زندہ رہا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید کر دیے گئے تو اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں تمہارا کوئی عذر قبول نہیں ہوگا۔‘‘[1] 8.ابن اسحٰق کہتے ہیں : غزوہ اُحد کے دن جب دشمنوں نے آپ پر ہجوم کر لیا تو آپ نے فرمایا کون ہے جو ہمارے لیے اپنی جان دیتا ہے؟ سیدنا زیاد بن سکن پانچ انصاریوں سمیت کھڑے ہوگئے اور ایک ایک کرکے آپ کا دفاع کرتے شہید ہوگئے۔سب سے آخر میں سیدنا زیاد اوراُمّ عمارہ رہ گئے اوروہ لڑتے رہے یہاں تک کہ زخموں نے انھیں گرادیا۔ پھر مسلمانوں کی ایک جماعت پلٹی تو اُنھوں نے زیاد سے دشمنوں کو ہٹایا۔ آپ نے فرمایا:اسے میرے قریب کردو۔ لوگوں نے سیدنا زیاد کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب کیا۔ آپ نے اپنا قدم مبارک ان کی طرف بڑھایا۔ اُنھوں نے اپنا رخسار آپ کے قدم مبارک پر رکھا اور جان جانِ آفرین کے سپرد کردی۔[2] 9.سیدنا بلال کی آپ سے محبت ...سیدنا محمد بن ابراہیم تیمی کہتے ہیں کہ رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کےبعد ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین نہیں ہوئی تھی کہ سیدنا بلال نے اذان دی اور جب أشھد أن محمّد رسول اللّٰہ پر پہنچے تو صحابہ کرام پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین ہوگئی تو سیدنا ابو بکر نے بلال سےکہا :اذان دو !سیدنا بلال نے کہا: اگر آپ نے مجھے اپنی خاطر آزاد کرایا ہے تو پھر آپ کو یہ حکم دینے کا حق ہے ،لیکن اگر آپ نے مجھے اللّٰہ کی رضا کےلیے آزاد کرایا ہے تو پھر مجھے کچھ نہ کہیے ۔سیدنا ابو بکر نے کہا: میں نے تمہیں صرف اللّٰہ کی رضا کے لیے آزاد کرایا ہے تو سیدنا بلال نے کہا :تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
Flag Counter