تو لوگوں نے سیدنا عمر کو بتایا کہ عبداللّٰہ آگئے ہیں ۔ سیدنا عمر نے لوگوں سے کہا: مجھے اُٹھا کر بٹھا ؤ ۔ ایک آدمی نے سیدنا عمر کو سہارا دیا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: عبداللّٰہ! کیا خبر لائے ہو؟ سیدنا عبداللّٰہ نے کہا: امیر المؤمنین جو آپ چاہتے تھے سیدہعائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو اجازت دے دی ہے ۔ سیدنا عمر نے الحمد للہ کہا،میرے لیے اس سے اہم اور کوئی بات نہیں ۔ سیدنا عمر نے اپنی وفات کے بعد بھی سیدہ عائشہ سے تدفین کی تصدیق کرنے کو کہا، مبادا اُنھوں نے خلافت کے دباؤ میں اس کو قبول کیاہو۔[1]
13. جناب رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے ہیں : سیدنا ابو بکر صدیق خطبے کے اشاروں کنایوں سے اندازہ کرتے ہیں کہ جناب حبیبِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کا وقت قریب آپہنچا ہے ۔ ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو جاتے ہیں ۔بخاری میں ابو سعید خدری سے روایت ہے، جناب رسول اللّٰہ نے خطبہ ارشاد فرمایا : بے شک اللّٰہ تعالیٰ نے ایک بندے کو دنیا اور جو کچھ اُس کے پاس ہے، دونوں میں سے ایک چیز منتخب کرنے کاموقع عطا فرمایا ۔ اس بندے نے وہ چیز لی جو اللّٰہ کے پاس ہے ۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق نے رونا شروع کردیا ۔ ہمیں ان کے رونے پر تعجب ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بندے کے متعلق بتایاتو اُنھوں نے رونا شروع کردیا۔ اصل حقیقت یہ تھی کہ وہ اختیارآپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا تھا اور سیدنا ابوبکر ہم سب سے زیادہ بات کو سمجھنے والے تھے ۔[2]
14. سیدنا رفاعہ بن رافع نے روایت بیان کرتے ہوئے کہا : میں نے اس منبر پر سیدنا ابو بکر کو فرماتے ہوئے سنا : ’’میں نے گذشتہ سال اسی دن رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا۔ پھر ابو بکر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے ۔پھر ارشاد فرمایا: میں نے رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، پس تم اللّٰہ سے عافیت مانگو۔‘‘[3]
15. سیدنا ابوہریرہ کا سیدنا حسن کے پیٹ پر بوسہ دینا: صحابہ کو نبی کریم کی ہرادا سے پیار تھا، ایک بار سیدنا ابو ہریرہ نے نواسۂ رسول حسن کو روک لیا اور کہنے کہ میں نے رسول اللّٰہ کو دیکھا تھا کہ انہوں نے آپ
|