آج ہمارے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حقیقی تصویر تو موجود نہیں ۔ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کوتصویر کے فتنے سے منع فرمایا ہے ، کیونکہ اس سے شرک کادروازہ کھلتا ہے ،البتہ آپ کے حسن وجمال کی جھلک دیکھنے والوں نے آپ کے رخِ انور،حسن و جمال ، قدو قامت ، بے مثال خدو خال اور باوقار و پر کشش شخصیت کا نقشہ اپنے الفاظ میں کھینچ دیا ہے۔ صحابہ کرام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سےکس قدر محبت تھی ۔ کس کس زاویے سے انھوں نے آپ کو دیکھا، جانچا اور کن کن الفاظ سے آپ کی شخصیت کا احاطہ کیا ، اُس سے ان کی محبت کا اندازہ ہوتا ہے ۔
4. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک صرف صحابہ کرام نےہی نہیں بلکہ ایک صحابیہ اُمّ معبدنے بڑے زبردست طریقے سے بیان کیاہے ۔ ہجرت کے سفرمیں دوسرے دن آپ کا گزر اُمّ معبد کے خیمے سے ہوا، یہ مکہ سے 130 کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہارے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے ؟ تو اس نے میزبانی سے معذرت کی اور بتایا: بکریاں دور دراز گئی ہوئی ہیں ، ایک بکری ہے جو بہت ہی کمزور اور لاغر سی ہے جس میں دودھ کا ایک قطرہ بھی نہیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت لے کر اس بکری کا دودھ دھویا اور اس بکری نے اتنا دودھ دیا کہ بڑا سا برتن بھر گیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امّ معبد کو بھی پلایا ۔اپنے ساتھی کو بھی پلایا ،پھر خود پیا اور دوبارہ دھو کر برتن بھر دیا اور روانہ ہوگئے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کےبعد ام معبد کا شوہر گھر پر آیا ۔ اُس نے دودھ دیکھا تو اسے تعجب ہوا ۔ پوچھا ! یہ کہاں سے آیا؟ تو اُم معبد نے پوری بات بتلا دی۔[1]
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر تا پا وجود، گفتگو اوراحوال کو بہت تفصیل سے بیان کیا۔ اس پر ابومعبد بول اٹھا: واللّٰہ! یہ توصاحبِ قریش ہے ۔ میراارادہ ہے آپ کا ساتھ اختیار کروں اور کوئی راستہ ملا تو ضرور ایسا کروں گا ۔
غور کریں کہ ابو معبد کو صرف آپ کا حلیہ مبارک جان کر ملاقات اور رفاقت کا شوق پیدا ہوگیا ۔ حلیہ کے ساتھ آپ کا اخلاق اورکردار بھی تھا.... اُمّ معبد نے کیاکہا تھا؟
’’پاکیزہ روح ،کشادہ چہرہ ، صاحبِ جمال ، نہ نحیف و لاغر، نہ توند نکلی ہوئی ، آنکھیں سیاہ اور فراخ ، یعنی بڑی آنکھیں ، بال لمبے اور گھنے ، آواز میں بھاری پن ،بلند گردن ،باریک پیوستہ ابرو ، جب خاموش ہوتے تو
|