اس باب دوم کی دلچسپ ترین بحث وہ ہے جہاں حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ ’’ماخذ کی بحث‘‘کی سرخی قائم کرکے رواۃِ تاریخ کا علمی و اخلاقی مقام اور تاریخ نگاری میں مؤرخین کا طرز عمل وغیرہ کی ذیلی سرخی قائم کرکے ابن جریر طبری، ابن سعد، ابن عبدالبر، ابن الاثیر اور ابن کثیر کی کتب کے منہج سے متعلق قارئین کو بیش بہا معلومات سے روشناس کرواتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ ان مؤرخین نے زیادہ تر صرف نقلِ روایات کا کام کیا ہے، ان میں سے کسی نے بھی تنقیحِ روایات کا نہ دعویٰ کیا اور نہ اس کی صد فیصد پیروی کی، خاص کر ابن جریر طبری نے تو کسی طور سے تنقیح کا کام نہیں کیا بلکہ اس متعلق ان کی کتاب تاریخ نہیں موادِ تاریخ پر مبنی ہے۔
کتاب کے باب سوم میں ’’خلافتِ راشدہ اور اس کی خصوصیات‘‘ کی سرخی قائم کرکے حافظ صاحب نے ،سید مودودی نے خلفائے اربعہ کے انتخاب سے متعلق جو غلط بیانی کی ، اس کا پردہ بدلائل چاک کیا ہے ۔ اپنی کتاب میں مولانا مودودی نے خلفائے اربعہ کے انتخاب کو مغربی جمہوریت کی طرز پر باور کروانے کی سعی لاحاصل کی ہے جو کہ ثابت شدہ تاریخی حقائق کے بالکل خلاف ہے۔ اس سلسلے میں حافظ صاحب نے ’’خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے انتخاب کی نوعیت‘‘ کی ذیلی سرخی قائم کرکے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لیکر بالترتیب سیدنا عمر، سیدنا عثمان، سیدنا علی اور سیدنا حسن رضوان اللہ اجمعین کے برسرِ اقتدار آنے کی اصل نوعیت واضح کی ہے کہ ہم جب خاص تاریخ خلافت پر غور کرتے ہیں تو ہمیں کسی طرح یہ معلوم نہیں ہوتا کہ نصب امام کا کوئی خاص طریقہ ہے۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سقیفہ بن ساعدہ میں اچانک اٹھ کر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور انکو خلیفہ بنانے پر پہلے کوئی مشورہ نہیں کیا۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو محض اپنے ذاتی اجتہاد سے خلیفہ مقرر کیا اور اس سلسلے میں کسی سے مشورہ نہیں لیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بعد محض اپنی مرضی سے پوری امت مسلمہ میں سے صرف 6 آدمیوں کا انتخاب بغیر کسی مشورہ کے کیا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ہنگامی حالات میں قاتلینِ عثمان رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے منتخب کیا جس کی وجہ سے کثیر تعدادِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کی بیعت سے محترز رہے جبکہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو پوری دنیائے اسلام میں سے صرف اہل کوفہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اجازت سے اپنا امیر مقرر کیا ۔یہ تاریخی حقائق تو صاف بتاتے ہیں کہ اسلام میں خلیفہ کے انتخاب کا کوئی واحد طریقہ مقرر ہی نہیں ہے۔
|