ساتھ ہی’’موجودہ ملکی حالات سے متعلق چند باتیں ‘‘ کے تحت اپنی گزارشات قارئین کے سامنے رکھ کر حافظ صاحب اس نصیحت کے ساتھ مقالے کا اختتام کرتے ہیں کہ اصل ضرورت بحیثیت قوم اپنا رخ بدلنے کی ہے۔ حکمرانوں کو کوسنا اور ہر غلط چیز کے لئے بیوروکریسی وغیرہ کو مورد الزام ٹھہرانا کوئی حل نہیں ہے۔ یہ حکمران یہ بیوروکریٹ کوئی آسمان سے نہیں ٹپکے۔ یہ ہم آپ میں سے ہی اوپر اٹھ کر آتے ہیں ۔ جب قوموں کا مجموعی مزاج ہی زوال کا شکار ہو تو پھر ان پر عمال و حکمران بھی بداعمال ہی مقرر ہوتے ہیں ۔ سو اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ بحیثیت فرد، بحیثیت قوم ہم اسلامی قوانین اور اخلاقی ضابطوں کی پابندی کریں اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بغاوت کا وہ راستہ چھوڑدیں جس پر اس وقت ہماری پوری قوم گامزن ہے۔ اس مقالے پر تفصیل سے اس لئے تبصرہ کیا گیا کہ درحقیقت یہ تبصرہ حافظ صاحب کی کتاب کے شروع کے دو ابواب کی ابحاث کا منطقی نتیجہ بھی ہے۔ گویا اس مقالے میں حافظ صاحب نے اپنے ان دوابواب کی ابحاث کو منطقی نتائج کے طور پر سمیٹ دیا ہے۔
باب دوم میں ’’چند بنیادی مباحث اور ان کی تنقیح‘‘ کی سرخی قائم کرکے حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ سید مودودی کی کتاب ’’خلافت و ملوکیت‘‘ کے ضمیمہ کا جائزہ لیتے ہیں ۔ جہاں وہ باری باری سید مودودی کے ان تمام نکات کا جواب دیتے ہیں جن کے ذریعے وہ قاری کے ذہن کو صحابہ پر ہونے والی تنقید کے لئے تیار کرتے ہیں ۔ اسی مبحث میں ’’عدالت ِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بحث‘‘ کی سرخی قائم کرکے حافظ صلاح الدین یوسف بتاتے ہیں کہ سید مودودی پہلے خود سے’’عدالت ِ صحابہ‘‘ سے متعلق اہلسنت کے غلط مؤقف کی ترجمانی کرتے ہیں اور پھر اس کے رد پر دلائل لے کر آتے ہیں جبکہ سیدمودودی جس موقف کو اہلسنت سے منسوب کرتے ہیں وہ کبھی اہلسنت کا موقف رہا ہی نہیں ہے۔ اہلسنت نے کبھی بھی صحابہ کو عادل بمعنی معصوم نہیں سمجھا۔ ان کا اصل مقدمہ و مؤقف یہ ہے کہ صحابہ معصیت پر اصرار نہیں کرسکتے اور ساتھ ہی ان کے کردار پر حرف لانے والی ہر روایت کو الجرح و التعدیل کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنہ کے کردار کی رفعت و عظمت نصوصِ قطعیہ سے ثابت ہے، اس پر غیر ثابت تاریخی روایات کے تحت نقد نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ سید مودودی نے اپنی کتاب میں جابجا کیا ہے۔
|