Maktaba Wahhabi

191 - 195
لچکدار ہونگے کہ دنیا کی ہر قوم انکے تحت زندگی بسر کر سکے۔ اگر ملوکیت یا بادشاہت واقعی کوئی مذموم شے ہوتی تو یہ بات کیسی عجیب ہے کہ پوری تیرہ صدیوں میں اسلامی بادشاہتیں قائم رہیں لیکن عہد خیرالقرون سمیت کسی دور میں بھی علمائے امت نے اس نظام حکومت کو نشانہ تنقید یا ہدف ملامت نہیں بنایا۔ ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں علمائے حق گزرے ہیں ، ان کی موجودگی میں بادشاہی نظام قائم رہا، صحابہ کرام کے دور میں ایسا ہوا، تابعین و تبع تابعین کے دور میں فقہاء و محدثین کی ایک طویل فہرست نظر آتی ہے جنھوں نے مختلف مواقع پر مختلف کاموں پر خلفائے اسلام کو ٹوکا لیکن ان میں سے کسی نے خلیفہ کو اپنے بعد اپنے بیٹے کو نامزد کرنے پر نہیں ٹوکا، کسی نے یہ نہیں کہا کہ یہ نظام حکومت صحیح نہیں ہے۔ تو پھر ہمارے موجود ہ زمانے کے مفکرین کی یہ خامہ فرسائی کہ ملوکیت و بادشاہت سر تا پا مذموم ہے جس کے بانی ایک جلیل القدر صحابی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ تھے جن کے عہد حکومت کے اختتام تک اسلامی حکومت کی تمام امتیازی خصوصیات مٹ چکی تھیں ، سخت گمراہ کن نظریہ ہے ، جس کی تبلیغ و اشاعت سے اسلاف سے بدظنی کے علاوہ اور کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہونا۔ ملوکیت کے مباح ہونے کی تائید میں حافظ صاحب مختلف علماء و مورخین کے تائیدی اقوال بھی ساتھ ساتھ نقل کرتے جاتے ہیں ۔ اسی مقالے میں ’’بگاڑ کے اسباب‘‘ کے عنوان کے تحت انتہائی عالمانہ اور منطقی بحث قائم کرکے حافظ صاحب صراحت سے ثابت کرتے ہیں کہ اس بگاڑ کی اصلی وجہ عربی کے اس مقولے میں پنہاں ہے کہ اعمالکم عمالکم یعنی جیسے تمہارے اعمال ہونگے ویسے حکمران تم پر مسلط ہونگے۔ دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے دوری کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرے میں بحیثیت مجموعی تنزل و انحطاط واقع ہوتا رہا جس کا دائرہ کار اخلاقیات و معاشرت سےلیکر معاشیات و سیاسیات تک محیط تھا۔ جبکہ ہمارے موجودہ مفکرین کی بنیادی غلطی یہ رہی کہ ان کے نقطہ نظر سے بگاڑ صرف سیاست میں آیا جبکہ بگاڑ ہر شعبہ زندگی میں اپنی تدریجی رفتار سے آیا جس کے اثرات سیاست پر بھی پڑے ۔ اسی بات کو اپنی کتاب میں آگے جاکر’’ بگاڑ کے چند بنیادی اسباب‘‘کی سرخی قائم کرکے حافظ صاحب نے دورِ ابو بکر رضی اللہ عنہ ، دور عمر رضی اللہ عنہ ، دورِ عثمان رضی اللہ عنہ ، دورِ علی رضی اللہ عنہ اور دورِ معاویہ رضی اللہ عنہ سے مختلف امثال لاکر واضح کیا ہے۔
Flag Counter