ضمیمہ جات اور آخری صفحات میں ثبت کرکے قاری کے ذہن کو صحابہ کے خلاف ان واہی روایات کو قبول کرنے کے لئے مسموم کیا ہے۔ اس بابت حافظ صاحب کی یہ کتاب نہایت منفرد ابحاث اپنے اندر رکھتی ہے جو اس موضوع پر لکھی جانے والی اور کسی کتاب میں نہیں ملتیں ۔
مولانا تقی عثمانی صاحب نے اس کتاب پر جب تبصرہ کیا تھا تو انہوں نے چند استفسارات بھی حافظ صاحب کے سامنے رکھے تھے، ان استفسارات کے جواب میں حافظ صلا ح الدین یوسف حفظہ اللہ نے اپنے ایک مقالے کو جو الگ سے ’’ اسلامی خلفاء و ملوک اور تاریخِ اسلام سے متعلق چند غلط فہمیوں کا ازالہ’’کے نام سے شائع ہوا تھا ، کتاب کے اس نئے ایڈیشن میں شامل کیا ہے۔ یہ مقالہ 1980 کی دہائی کے وسط میں ہمدرد فاؤنڈیشن کے تحت منعقدہ تیسرے مذاکرہَ ملی میں پڑھا گیا تھا ۔ اس مقالے میں حافظ صاحب ’’بعض مفکرین کی خامیاں اور کوتاہیاں ‘‘ کی سرخی قائم کرکے اسلامی ریاست کے قیام اور اسلامی نظام کے نفاذ کے لئے جدوجہد کرنے والے مفکرین کی مساعی کی تہہ دل سے تحسین کرنے اور معترف ہونے کے ساتھ ساتھ پورے احترام کے ساتھ ان سے اختلاف کرتے ہیں کہ موجودہ دور کے جمہوری نظام سے مرعوب ہوکر ان مفکرین نے ملوکیت یا بادشاہت کو نہایت مذموم شے باور کروانے پر اپنی محنتیں صر ف کر رکھی ہیں اور ایسا کرتے ہوئے یہ اصحاب خلفائے اربعہ اور امیر عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ کے علاوہ تمام خلفاء و سلاطین سے سخت نالاں نظر آتے ہیں اور ان کا ذکر ناگوار انداز میں کرتے ہوئے ان کے دور حکومت کو جاہلی حکومتیں باور کرواتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ حافظ صاحب ’’خلافت و ملوکیت‘‘ کے عنوان سے ایک بھرپور بحث کرتے ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ اسلام کا اصل سیاسی نظام مباح ہے۔ شریعت کو اس سے قطعی بحث نہیں کہ نظام سیاسی کی ہئیت ترکیبی کیا ہوگی، سر حکومت کیسے برسر اقتدار آئیگا اور مختلف النوع معاشروں کو اسلامی برادری کے ایک رشتے میں کیسے منسلک کیا جائیگا۔ اللہ نے مسلمانوں سے جس خلافت کا وعدہ کیا تھا، اس میں یہ نہیں بتایا کہ اسکا دستور اساسی کیا ہوگا، وہاں الفاظ ہیں ’ کما استخلف الذین من قبلھم‘ (جیسے ان سے پہلے لوگوں کو حکومت دی تھی)۔ دنیا میں حکومت کی جتنی اور جیسے بھی صورتیں رائج چلی آرہی ہونگی ویسی ہی مسلمانوں کی حکومت بھی ہوگی، فرق صرف اتنا ہوگا کہ اس حکومت کا مقصد دین برپا کرنا ہوگا اور اس کے قوانین ایسے
|