پیچھے کوئی علمی و دینی مقصد کارفرما نہ تھا بلکہ یہ ایک ردِ عمل تھا ایوب خانی آمریت کا جس سے زچ ہوکر ایک خاص سیاسی ذہن کے زیرِ اثر سید مودودی کے قلم نے مشاجراتِ صحابہ پر ناروا گفتگو کو اپنا موضوع بنایا۔ اپنے اس دعویٰ کے اثبات میں حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے خود سید مودودی اور ان کی جماعت کے کئی سیاسی اقدامات کو بطور نظیر پیش کیا ہے۔
عرض مصنف کے بعد مختلف اخبارات و رسائل میں حافظ صاحب کی اس کتاب سے متعلق جو تبصرے شائع ہوئے تھے، وہ سب ہدیۂ قارئین کئے گئے ہیں ۔ ان تبصرہ جات میں مولانا تقی عثمانی، مولانا ضیاء الدین اصلاحی، مولانا محمد اسحٰق صدیقی سندیلوی، مولانا غلام اللہ خان، پروفیسر یوسف سلیم چشتی، مولانا عبدالرؤف رحمانی، مولانا منظور نعمانی، مولانا حکیم سید علی عباسی اور مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری جیسی علمی شخصیت کے تبصرے شامل ہیں ۔ ساتھ ہی جناب وارث سرہندی، ڈاکٹر اسرار احمد، مولانا ابو الحسن علی ندوی، مولانا عبدالحمید صدیقی اور مولانا محمد حنیف ندوی وغیرہم کے چند متعلقہ علمی مضامین بھی شاملِ کتاب کئے گئے ہیں ۔ کتاب پر پیش لفظ جید اہلحدیث عالم مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی مرحوم کے قلم سے ہے ۔ کتاب پر مقدمہ مولانامحمد یوسف بنوری صاحب کا ہے جو کہ دفاعِ صحابہ و کردارِ صحابہ سے متعلق اپنے اندر بیش بہا معلومات رکھتا ہے۔ گیارہ صفحات پر پھیلا یہ مقدمہ اس قابل ہے کہ اس کو ایک مستقل الگ رسالے کے طور پر بار بار شائع کروایا جائے۔
حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے اپنی کتاب کو چھ ابواب میں مرتب کیا ہے۔ جن میں سے اول باب ’’چند بنیادی نکات کی وضاحت ‘‘ کے عنوان سے قائم کیا ہے۔ حافظ صاحب کی یہ کتاب اس موضوع پر لکھی جانی والی دوسری کتابوں سے اس لئے منفرد ہے کہ دوسری کتب میں عموماً صرف ان تاریخی روایات پر نقد و جرح کی گئی ہے جن کو سید مودودی نے ایک گروہِ صحابہ کو مطعون کرنے کے لئے اپنی کتاب میں شامل کیا ہے۔ جب کہ ان ناقدین نے ان اصولوں پر کوئی نقد و اعتراض نہیں کیا جن کو اپنی کتاب میں درج کرکے سید مودودی نے اپنی کتاب کے قارئین کو ان مجروح روایات کو قبول کرنے کا داعیہ فراہم کیا ہے ۔ حافظ صاحب نے اس ضرورت کو بخوبی سمجھا اور اپنی کتاب کے شروع کے دو ابواب کو خالص اس بحث تک مقید کر رکھا جس سے وہ قاری کے ذہن سے ان تمام شکوک و شبہات کا اصولی ازالہ کرسکیں جن کو سید مودودی نے اپنی کتاب کے
|