ضیافت کا ساماں کر دیتے تھے ،حتی کہ ا یک دستور کے مطابق جب کوئی مرجاتا تو اسکی سواری کے جانور کو اسکی قبر پر باندھتے اور اس کا غلہ ،پانی اور گھاس بند کر دیتے تھے ؛یہاں تک کہ وہ بھوکے پیاسے سوکھ کر اسی حالت میں مر جاتا ،ایسے جانوروں کو ’’بلیہ‘‘ کہتے تھے ،کبھی کبھی کسی خاص جانور کو باندھ کر تیر اندازی کرتے اور اپناق نشانہ درست کرتے تھے یا انہیں آپس میں لڑواکر ان کی خوں ریزی کا لطف اٹھاتے تھے،حد تو یہ تھی کہ ان پر سواری کرتے ،نقل مکانی اور باربرداری کا کام لیتے ،جنگ و جدل میں بے دریغ استعمال کرتے لیکن ان کے کھانے ،پینے کی چنداں پرواہ نہ کرتے تھے ،مزید یہ کہ اگر اس جانور کا کوئی عضو اچھا لگتا تو اسے یوں ہی کاٹ لیتے اور کھاجاتے ،جنگلوں میں شب و روز نکل جانا اور بیجا ولغو شکار کرنا ؛ بہادری کامعیار مانا جاتا تھا ،انہیں ذبح کرنے اور کاٹنے کے معاملہ میں تو پتھر اور ناخن کا بھی استعمال کر لیتے تھے ؛جن سے جانور ذبح کم اور گھٹن سے زیادہ جاں سونپ دیتا تھا اور اگر کوئی جانور ان کے قابو و گرفت سے باہر ہوجاتا خواہ اس کی پیر سالی وضعف کی وجہ سے کیوں نہ ہو ؛اسے لعنت و ملامت کا نشانہ بناتے تھے ۔
حقیقت یہ ہےکہ اسلام ایسے ہی پرآشوب حالات،بے دردوں اور بے دلوں میں رونماہوا ،اور ایک نبی امی محمد مصطفیؐ اپنی ردائے رحمت ہر سو پھیلانے لگا ،جس کی شفقت و یاروی کی بساط نہ صرف انسانوں پر ؛بلکہ حیوانات پر بھی دراز ہوئی،جیسا کی قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے
﴿وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ﴾(سورہ الانبیاء:107)
ترجمہ : ’’اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام عالم کے لیے رحمت بنا کے بھیجا ہے۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف انسانیت ہی کے لیے نہیں ، بلکہ سارے عالموں کے لیے رحمت بنا کر مبعوث کیے گئے ہیں ، جن کی رحمت کا اثر صرف انسانوں تک ہی محدود نہ تھا؛ بلکہ اس سے متجاوز ہو کر آپ کا سایہ عاطفت ورحمت چرند پرند حیوانات تک کے لیے عام تھا، جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ جانوروں کے ساتھ نرمی کی ہدایات دیں ، وہیں عمل کے ذریعہ بھی جانور کے ساتھ رحم وکرم کا معاملہ کرکے دکھا یا، آج
|