نیزفرمایا:
﴿وَالْأَنْعَامَ خَلَقَہا ۗ لَكُمْ فِيہا دِفْءٌ وَمَنَافِعُ وَمِنْہا تَأْكُلُونَ،وَلَكُمْ فِيہا جَمَالٌ حِينَ تُرِيحُونَ وَحِينَ تَسْرَحُونَ،وَتَحْمِلُ أَثْقَالَكُمْ إِلَىٰ بَلَدٍ لَّمْ تَكُونُوا بَالِغِيہ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنفُسِ ۚ إِنَّ رَبَّكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ﴾(النحل:7،6،5)
’’اور تمہارے لئے چار پائے پیدا کئے ان میں تمہارے لئے جاڑے کے کپڑے اور کئی فائدے ہیں اور بعض کو ان میں سے کھالتیے ہو ۔اور تمہارے لئے ان میں زینت ہے جب شام کو لاتے اور چرنے جاتے ہو،اور وہ تمہارا بوجھ اس بستی تک اٹھا لے جاتے ہیں جہاں تم بغیر جان توڑ مشقت کے نہیں پہنچ سکتے تھے ، بےشک تمہارا رب شفقت کرنے والا مہربان ہے ۔‘‘
رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پھلے زمانۂ جا ہلیت انسانیت کا تاریک ترین اور گمراہ کن دور تھا،جس کی عمارت کی ہر اینٹ اپنی جگہ سے متزلزل اور بے بنیاد تھی،ظلم و جور کی چادر ہر جان و بے جان پر تنی ہوئی تھی ،رحمت و مودت اور اخوت و بھائی چارگی نے دم توڑ دیا تھا ،قدم قدم پر جنونیت و دیوانگی کے مدفن نے ؛فطرت انسانی کو اپنے آپ میں دفن کر لیا تھا ،خدا تعالی کی نت نئی مخلوقات پر مشتمل اس دنیا کی ہر ذی روح ؛گھٹن اور بے کسی کی شکار تھی ،جانور و حیوانات رفق ونرمی سے سراپا محروم تھے،بلکہ بسااوقات ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کے آرام و آرائش کا خیال رکھنے کو قصۂ استعجابیہ سے دیکھتے اور اسے بے جا شوق پورا کر نے،ایک دوسرے پر اپنے آپ کی فضیلت ثابت کر نے کا ذریعہ سمجھتے تھے ،دیوان جاہلی میں ایسے بہت سے قصوں کا ثبوت ملتا ہے ؛جنہیں پڑھ کر انسانی طبیعت بے ساختہ مچل اٹھتی ہے ،اور طبیعت انسانی کے مسخ ہونے پر شاہد ہوتی ہے ،ان کی قساوت و سنگدلی کا عالم یہ تھا کہ فیاضی کی آڑ میں جانوروں کو عامیانہ طور پر مار گراتے تھے اور لوگوں سے کہتے :تم انہیں کھا جاؤ!،تو وہیں دو آدمی شرط لگا کرکھڑے ہو جاتے تھے اور باری باری سے اپنا اونٹ ذبح کرتے جاتے تھے ؛جو رک جاتا وہ ہار جاتا تھا ،اور مذبوحہ جانوروں کو احباب کی
|