کھجوروں کی بہتات تھی کبھی کبھارجب کسی کو روٹی کاکوئی ٹکڑاملتاتو تووہ اسے خودکھانے کی بجائے مجھے دےدیتا۔
ولیدبن مغیرہ بھی جملہ قیدیوں میں شامل تھے ،وہ کہتے ہیں :ہم جن کی قید میں تھے وہ اتنے بلنداخلاق کےپیکرتھے کہ خود پیدل چلتے اور ہمیں سواری کی سہولت مہیا کرتے۔[1]
ایسے ہی حقوق دین ِ اسلام نے قیدیوں کوبھی دیے ہیں ،جوکہ مندرجہ ذیل ہیں :
1.قیدی کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کیاجائے،اسے انسان جانتے ہوئے مکمل حقوق دیے جائیں ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے قیدیوں کو جب صحابہ میں تقسیم کیاتو ان سے فرمایا:’استوصوا بھم خيراً‘ ان کےساتھ بھلائی کرو۔[2]
اورقیدیوں سے متعلق رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کاارشادگرامی ہے:’فکّوا العانی،قیدیوں کو رہائی دلاؤ۔‘[3]
2.انھیں کھانے پینے کی مکمل سہولت فراہم کی جائے،جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد ہے: ﴿وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّہ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيراً﴾(الدہر:8)
’’اور وہ کھاناکھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور قیدی کو۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ نےبنوعقیل کےایک شخص کوقیدبنایاتووہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےسامنے بیڑیوں میں جکڑا پیش کیاگیااس نےآپ کوپکاراتو آپ نے اس کی حاجت پوچھی تو اس نے کہاکہ میں بھوکاہوں مجھے کھاناکھلایاجائے اورپیاساہوں پانی پلایاجائے،آپ نے اس کی ضرورت کو پوراکیا۔[4]
امام شوکانی رحمہ اللہ اس حدیث میں لکھتےہیں :’وَفِي الْحَدِيثِ؛ مَشْرُوعِيَّةُ إجَابَةِ الأَسِيرِ إذَا دَعَا، وَإِنْ كَرَّرَ ذَلِكَ مَرَّاتٍ، وَالْقِيَامُ بِمَا يَحْتَاجُ إلَيْہ مِنْ طَعَامٍ وَشَرَابٍ‘[5]
|