نے قیدیوں کے بارے میں حسنِ سلوک کی تاکیدکی تھی۔[1]4.رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے چچاعباس سے سلوک
یہ بدر میں قید ہوگئے ،اور رسیوں میں جکڑے ایک انصاری کی قید میں تھے،رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو ان کے رونے کی آواز کو سن کر نہایت بے چین ہوگئے اس کے سبب آپ نہ سوسکے،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کوبے چین دیکھاتو عرض کیا کہ آپ جاگ رہے ہیں ؟ فرمایا:عباس کے رونے نے مجھےبےچین کیاہواہے،تونے عرض کیاکہ کیا ان کی بیڑیوں کو ڈھیلی نہ کردی جائے ؟رسی ڈھیلی کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بےکلی وبے چینی دور ہوئی اور آپ سکون سے سوئے۔
انصار نے رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاسیدناعباس رضی اللہ عنہ کو فدیہ سے مستثنیٰ کرناچاہاتو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےایسا کرنے سے سختی سے منع کیااورفرمایا:ان کاایک درہم بھی معاف نہ کرو،اس معاملے میں کسی طرف داری کی کوئی گنجائش نہیں ،چاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاہی کیوں نہ ہوں ۔[2]
5.رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے دامادابوالعاص سے سلوک
ابوالعاص بن ربیع، رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض یافتہ گان صحابہ کے قیدیوں سے حسن سلوک بایں الفاظ بیان کرتے ہیں :
’كنت مستأسرًا مع رہط من الأنصار-جزاہم اللہ خيرًا- كنا إذا تعشّينا أو تغدّينا آثرونا بالخبز وأكلوا التمر، والخبز عندہم قليل، والتمر زادہم حتى أن الرجل لتقع في يدہ الكسرة فيدفعھا إليَّ ‘
وكان الوليد بن المغيرة يقول مثل ذلك ويزيد، قال: وكانوا يحملوننا ويمشون.
میں انصارکے ایک گروہ کےہاں قیدتھا –-اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیردے-صبح شام وہ جب بھی کھاناکھاتے روٹی مجھے دیتے،جبکہ وہ خود کھجوروں پر گزارا کرتے،ان دنوں مدینہ میں روٹی کم میسر تھی
|