ہے۔جوعیسائیوں کے ہاتھوں عیسائیوں کی ہوئی تھی۔
اکیلی سلطنت اسپین نے تین لاکھ چالیس ہزار عیسائیوں کو قتل کیاتھا،جن میں سے بتیس ہزار آدمی زندہ جلائے گئے تھے۔‘‘[1]
دورِ حاضر میں انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں نے قیدیوں کے ساتھ کیسے کیسے انسان سوز مظالم کیے۔
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ،سَن 2001 ءمیں افغانستان کے علاقے دشت لیلیٰ کا ہولناک اور خوفناک واقعہ پیش آیا تھا۔ جس میں کئی ہزار طالبان قیدیوں کو بغیر کسی مقدمہ کے لوہے کے کنٹینروں میں بند کر کے بھوکا پیاسا ہلاک کر دیا گیا تھا۔ وہ پانی کے ایک ایک قطرے کو ترستے رہے۔ اور بچنے والے کہتے ہیں کہ ہم نے پسینہ پی کر جان بچائی۔ یہ دنیا کے ہر جنگی قانون کے خلاف ہے اور انتہائی افسوسناک ہے۔
زندہ قیدیوں کےسروں کوتن سے جد اکرکے ان میں پٹرول بھر کرآگ لگائی گئی ،اوران کے ناچتےجسموں کودیکھ کر’’زندہ لاشوں کارقص‘‘کاعنوان دیاگیا۔ابوغریب اور گوانتاناموبے میں قائم جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ کیساسلوک ہوا،ان پر کتے چھوڑےگئے،جسم کے نازک اعضاکوکرنٹ کے جھٹکے دیے گئے۔
حالت ِجنگ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمت وشفقت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ نے دورانِ جنگ بچوں عورتوں ،بزرگوں کوقتل کرنےسے منع کیاہے۔جیساکہ درج ذیل احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے:
’وُجِدَتِ امْرَأَةٌ مَقْتُولَةً فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُولِ اللَّہ صلى اللّٰه عليہ وسلم، فَنَھیٰ رَسُولُ اللَّہ صلى اللّٰه عليہ وسلم عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ‘[2]
جنگ میں کسی موقع پرایک عورت مقتول پائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اوربچوں کے قتل سے منع فرمادیا۔
ایک صحابی کاکہناہے:’ كنا مع رسول اللّٰه -صلى اللّٰہ عليہ وسلم- فى غزوة فرأى الناس مجتمعين على شىء فبعث رجلا فقال: انظر علام اجتمع ہؤلاءفجاء فقال على امرأة
|