قربانیوں کے واسطے انگلش قوم پری مستعدی سے آمادہ ہے۔‘‘
اس کے حاشیہ میں قاضی صاحب رحمہ اللہ اخبارہمدم17اپریل 1919ء کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس مذکورہ بالاجنگ میں کتنی جانیں تلف ہوئیں ،چنانچہ وہ رقمطرازہیں :’’اخبارہمدم17اپریل 1919ء نےجنگ عظیم از1914ءتا18ءکے مقتولین کی تعداد مندرجہ ذیل طبع کی ہے:روس 17لاکھ،جرمنی 16لاکھ،فرانس13لاکھ ستر ہزار،اٹلی 4لاکھ ساٹھ ہزار،آسٹریلیا8لاکھ،برطانیہ7لاکھ،ترکی 2لاکھ پچاس ہزار،بیلجئیم1لاکھ دوہزار،بلغاریہ1لاکھ،رومانیہ1لاکھ،سرویامانٹی 1لاکھ،امریکہ 50ہزار، ان سب مقتولیں کل تعداد73لاکھ اڑتیس ہزار بنتی ہے۔مضمون نگار کوشک ہے کہ انگلستان وفرانس کی تعداد میں ہندوستان اورفرانس کی نوآبادیوں کے مقتولین کی تعداد شامل ہےیا نہیں مگریہ اقرارہے کہ زخمیوں ،اسیروں اور گمشدوں کی تعداد مذکوربالاعدد میں شامل نہیں ۔‘‘[1]
پھر قاضی صاحب رحمہ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوی دور کی23 سالہ حیاتِ طیبہ میں ہونے والی جنگوں کے مقتولین کی کل تعداد ذکرکرکےاس پر بہترین انداز میں تبصرہ کرتےہوئےلکھتےہیں :
’’خیال کرو سیدنامحمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کامیابی کا جنہوں نے فریقین کی صرف 108قربانیوں کے بعداس قدر روحانی واخلاقی ومادی وملی فوائدحاصل کیےتھے،جن کوبہ حیثیتِ مجموعی آج تک دنیا کی کوئی قوم اورملک حاصل نہیں کرسکا۔‘‘[2]
آگےمختلف اہل مذاہب کی باہمی جنگوں کاذکرتےہوئے تحریر کرتےہیں :’’اہل دنیاکی لڑائیوں کاذکرچھوڑو۔مقدسین کی لڑائیاں لو،مہابھارت کے مقتولین کی تعداد کروڑوں سے کم یورپ کی مقدس مذہبی انجمنوں نےجس قدرنفوس کو ہلاک کیا۔ان کی تعدادلاکھوں سے زائد ہے۔‘‘
اس کےبعد قاضی صاحب رحمہ اللہ نے جان ڈیون پورٹ کی کتاب ’’اپالوجی آف محمد اینڈ قرآن‘‘ کےحوالے سی نقل کیاہے’’مذہبی عدالت کے احکام سے ہلاکتِ نفوس کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ بتائی
|