حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عدم جارحیت کے معاہدے اس بات کا منہ بولتاثبوت ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تلوار چلانے نہیں ،بلکہ امن وآشتی اورصلح وسلامتی قائم کرنےآئےتھے۔
اوراگرانسانی ہمدردی کے ان علمبرداروں کوجائزوناجائزہرمشکل میں بہائےگئے خون کی سرخی سے ڈرلگتاہےتوپھردوسروں کےمنہ لگنے سے پہلےاپنے گھرکی خبرتولیں جس کاہردرودیوارخون سے لت پت ہے۔عہدِنبوی کےغزوات وسرایامیں توفریقین کے کل ایک ہزاراٹھارہ (1018)آدمی جنگ میں کام آئے۔
اگربالفرض ان 82 غزوات وسرایاکو جنگیں ہی تسلیم کرلیاجائے تو آپ کل مقتولین 1018کو 82 پر تقسیم کریں ۔صرف ساڑھے بارہ مقتول اوسط نکلتی ہے۔کیاایسی لڑائیوں کو عقل سلیم کی روشنی میں صدہاسالہ مذاہب کے جبراً ترک کروانے اور اسلام قبول کروانے میں کافی مؤثرقراردیاجاسکتاہے؟
ان تمام لڑائیوں میں کفارکے چھ ہزار پانچ سوچونسٹھ(6564)آدمی قیدی بنائےگئےجن میں سے چھ ہزار(6000)صرف غزوۂ حنین میں اسیرکیےگئے ۔باقی جنگوں میں ،اسیروں کی اوسط صرف سات نکلتی ہے۔کیایہ تعداد پورے ملک کوتبدیلیٔ مذہب کےلیے مجبور ہونے کا سبب قراردی جاسکتی ہے؟اور پھر ہمارے نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کااخلاقی کارنامہ دیکھیں کہ صرف دو قیدیوں کو ان کے سابقہ جرائم کی پاداش میں قتل کیاباقی تمام کورہاکردیاتھا۔ ‘‘[1]
قاضی صاحب رحمہ اللہ اپنی مایہ ناز کتاب ’’رحمۃ للعالمین‘‘میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کے برتاؤ کوذکرکرنے بعدجنگ عظیم اول کاذکرکرتےہیں کہ اس میں انسانوں کے ساتھ کیاسلوک ہوا۔لکھتےہیں :’’دنیاکے ملحمۃ العظمیٰ(عظیم ترین جنگ جو14اگست 1914ء سے شروع ہوکر تاریخ3مارچ 1917ء تک متمدن دنیاکے حصہ کثیر پرجاری رہی)کے نقصانات دیکھو۔انگلستان کامقصد اس جنگ میں صرف اتناہی بتایاگیا کہ چھوٹی سلطنتوں کی آزادی اورحفاظت کو برقرار رکھاجائے۔صرف اتنے مقصدکےلیے لاکھوں نفوس اوراربوں اشرفیوں کو خاک وخون میں ملادیاگیا۔سیکڑوں جہاز سمندر میں غرق ہوچکے تجارت عالَم مخدوش ہوگئی،عیش وآرام کے سب سامان تباہ ہوچکے،باایں ہمہ امیدحصول مقصد آئندہ
|