مشکل ہو جائے اور اگر کوئی سخت کام ڈالو تو تم خود بھی ان کی مدد کرو۔ ‘‘
5.ناممکن کام سونپنا جائز نہیں
کسی ایسے ہی کام پر مزدور نہ بنایا جائے جو ممکن العمل نہ ہو، وگرنہ تکلیف مالا یطاق ہوگی ، کیونکہ قرآن کریم میں جو اصول دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ :
﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰہ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہا ۭ﴾
’’ اللہ کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ ‘‘
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رحمت بھرا فرمان بھی ہے :
’لاضرر ولا ضرار‘[1]
’’نہ (پہلے پہل) کسی کو نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا جائز ہے، نہ بدلے کے طور پر نقصان پہنچانا اور تکلیف دینا۔‘‘
قرآن کریم میں سیدنا شعیب علیہ السلام کا طرز عمل مذکور ہے کہ جب انہوں نے سیدنا موسی علیہ السلام کو مزدوری کے لیے مقرر کیا تو فرمایا:
﴿وَمَآ اُرِيْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَيْكَ ﴾( القصص: 27 )
’’ میں تم پر کوئی مشقت اور سختی نہیں ڈالنا چاہتا۔‘‘
ایسی صورت میں مزدور کے پاس یہ حق ہے کہ وہ مزدوری چھوڑ دے۔ اور اس پر کوئی جبر نہیں کیا جاسکتا۔
6. مزدور ی سے متعلقہ امور واضح ہوں
مزدور مقرر کرتے وقت ضروری ہے کہ پہلے کام کی نوعیت اور وقت اور اس کا عوض طے کرلیاجائے ان چیزوں میں سے کسی ایک چیز کے مبہم ہونے کی وجہ سے یہ عقد ناقابل قبول ٹھہرے گا۔
7.مقررہ اجرت کے تعین کےبعد اس میں صاحب العمل کی زیادتی ظلم شمار ہوگی۔
اگر مزدور کو طے شدہ معاہدےسے زیادہ محنت کروائی جائے تو صاحب العمل پر اس کے مثل اجرت کا اضافہ لازم ہے۔
|