اور چہرے پر، اداسی اور درد و کرب کا پرتو بن کر دن رات ایک کرتا ہے تو ایام سردی میں بھی،کبھی ٹھٹھرتی راتوں میں تو کبھی ٹھنڈے پانیوں میں ، محنت و مشقت کو اپنے سینے سے لگائے ہوتا ہے ، ایسا لگتا ہے کہ جیسے اسے سردی لگتی ہےنہ گرمی کی تپش میں لو کی شدت کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی انھیں برسات کی جھما جھم بارش کی پرواہ ہی ہوتی ہے ،کہ ان تینوں موسم میں ان کے پیٹ کی آگ کی شدت حاوی ہوتی ہے ۔ پہلے مزدور کا تصور یہ تھا کہ وہ صرف جوان مرد ہی ہوتے ہیں ،لیکن اب تو پیٹ کی آگ، بوڑھوں ، عورتوں اور بچوں تک کو بھی مزدوری کرنے پر مجبور کرتی ہے ۔ مزدور عورتیں اکثر عمارتوں کی تعمیر میں حصہ لیتی نظر آتی ہیں ۔ اینٹ کے بھٹوں پر بھی وہ اینٹ ڈھوتی ملتی ہیں ۔ اپنے شیر خوار بچے کو وہ اکثر اپنے جسم کے پچھلے حصہ میں کپڑوں سے باندھ کر بھی مزدوری کیا کرتی ہیں ۔
بہرحال دوسرے تمام ادیان و مذاہب کی بنسبت صرف اسی تاریخ کی روشنی میں یہ جملہ کہنا بالکل مبنی بر عدل اور قرین قیاس ہے کہ جو حیثیت دینِ اسلام نے مزدور پیشہ لوگوں کو دی وہ کسی اور مذہب میں ممکن ہی نہیں کیونکہ محنت و مزدوری کے لحاظ سے مختلف مذاہب میں جو طبقاتی تقسیم نظر آتی ہے اسے دیکھتے ہوئے کیونکر اس مذہب کا پیرو مزدور اپنے لیے اس میں کوئی عظمت سمجھے گا!
پھر رہی سہی کسر عالمی تناظر میں مزدوروں کے ساتھ ہونے والے مظالم ، ناانصافیاں ، استبداد کی مختلف شکلوں نے نکال دی اور ان کی روک تھام کے لیے بنائے گئے ناقص اصول کبھی کبھی تو خود ان مزدور پیشہ لوگوں کی عصمت پر حرف گیری کا سبب بنتے نظر آتے ہیں ۔ حتی کہ ضرورت محسوس کی گئی کہ مزدور ڈے مناکر اس سوچ میں کمی لائی جائے مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزدور ڈے اور مزدور :
مزدور ڈے کا جو پس منظر بیان کیا جاتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ جب مغربی دنیا میں مزدوروں کے ساتھ ظلم و زیادتی اور ان کی بد حالی تمام حدود سے باہر ہوچکی تھی ، مسلسل کئی کئی گھنٹے مزدوروں سے کام کروانا عام رواج بن چکا تھا ، اس مسئلے کے حل کے لیے مزدوروں نے امریکا کے شہر شکاگو میں ایک احتجاج اور ہڑتال کی صورت میں یہ مطالبہ کیا کہ کام کے اوقات آٹھ گھنٹے مقرر کیے جائیں اس دن امریکا کے محنت کشوں نے مکمل
|