تین مئی کو اس سلسلے میں شکاگو میں منعقد مزدوروں کے احتجاجی جلسے پر حملہ ہوا جس میں چار مزدور ہلاک ہوئے۔ اس بر بریت کے خلاف محنت کش احتجاجی مظاہرے کے لیے ( Haymarket square) میں جمع ہوئے۔پولیس نے مظاہرہ روکنے کے لیے محنت کشوں پر تشدد کیا اسی دوران بم دھماکے میں ایک پولیس افسر ہلاک ہوا تو پولیس نے مظاہرین پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جس کے نتیجے میں بے شمار مزدور ہلاک ہوئے اور درجنوں کی تعداد میں زخمی ،اس موقعے پر سرمایہ داروں نے مزدور رہنماؤں کو گرفتار کر کے پھانسیاں دیں ۔حالانکہ ان کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا کہ وہ اس واقعے میں ملوث ہیں ۔ انہوں نے مزدور تحریک کے لیے جان دے کر سرمایہ دارانہ نظام کا انصاف اور بر بریت واضح کر دی۔ ان ہلاک ہونے والے رہنماؤں نے کہا ۔ ’’تم ہمیں جسمانی طور پر ختم کر سکتے ہو لیکن ہماری آواز نہیں دباسکتے ‘‘ اس جدوجہد کے نتیجےمیں مزدوروں کے لیے دنیا بھر میں آٹھ گھنٹے مقرر کردیے گئے اور مزدوروں سے اظہار یکجہتی کے لیے دنیا بھر میں اس دن یوم مزدور کے طور پر منایا جانے لگا۔[1]
سوال یہ ہے کہ کیا ایک دن کے مزدور ڈے سے مزدوروں کی داد رسی ہوگئی ؟ ان کے حقوق کا تحفظ ممکن ہوا ؟ ان کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے لیے کوئی عالمی حکمت عملی ، عملی طور پر وجود میں آئی ؟ ان کی محنت کے مطابق انہیں معاوضہ دیا جانے لگا ؟ اگر ان ساری باتوں کا جواب نفی میں ہے اور یقیناً نفی میں ہی ہے تو پھر محض سالانہ ڈھونگ کا کیا فائدہ؟ بلکہ یہ تو مزید ایک دن کئی مزدوروں کے دیے بجھا دیتا ہے کہ مزدور ڈے کے تناظر میں عام تعطیل کئی مزدوروں کی یومیہ فاقہ کشی کا سبب بن جاتی ہے ، گویاکہ مزدوروں کے نام پر مزدوروں ہی کے ساتھ عالمی ظلم کی بھیانک تصویر!
لیکن !نبی رحمت کے مزدوروں کو گزشتہ صفحات میں ذکر کردہ بنیادی حیثیت دیے جانے کے بعد مزید جو زریں اصول بیان کیے گئے ، اگر دنیا ان اصولوں کو اپنے لیے مشعل راہ بنالے تو یقیناً یہ مزدوروں کے لیےحقیقی اور عملی داد رسی کا سب بن سکتے ہیں ۔ ذیل میں انہیں بیان کیا جاتا ہے ۔
|