جاتے تو اتار دیتے (متفق علیہ عن ابی قتادۃرضی اللّٰہ عنہ ) سیدنا حسن اور حسین رضی اﷲعنہما کو اپنی پیٹھ پر سوار کراتے اور اپنے ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چلتے ہوئے فرماتے : " نِعْمَ الْجَمَلُ جَمَلُکُمَا، وَنِعْمَ الْعِدْلَانِ أَنْتُمَا " ترجمہ : تمہاری سواری کیا ہی بہترین ہے اور تم کتنے بہترین شہسوار ہو۔( الإصابۃ فی تمیز الصحابۃ )
بچوں پر سے گذرتے تو انہیں سلام کیا کرتے،چھوٹے بچوں کو کھلاتے، زینب بنت ابو سلمہ رضی اﷲ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر کفالت تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ کھیلا کرتے، حضرت انس رضی اللہ عنہ نے دس سال آپ کی خدمت کی لیکن کبھی یہ نہیں کہا کہ : " یہ کام تم نے کیوں کیا ؟ اور یہ کام کیوں نہیں کیا ؟ کسی نا پسندیدہ کام پر بجائے ڈانٹنے کے محبت وشفقت سے سمجھاتے اور جس کام کا حکم دیتے اسکی حکمت ومصلحت بھی سمجھادیتے، جسکی وجہ سے بچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے مانوس ہوتے۔
انصاری بچیاں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آتیں اور خوشیوں کے موقعے پر دف بجا بجا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں اشعار پڑھتیں، جب کبھی آپ تعریف میں غلو محسوس فرماتے تو بڑے پیار سے منع فرماتے۔ ایک مرتبہ ایک بچی نے یہ مصرعہ پڑھا : "وَفِیْنَا رَسُوْلٌ یَعْلَمُ مَا فِیْ غَدٍ " (ہم میں ایسے رسول ہیں جو کل پیش آنے والے حالات کو جانتے ہیں ) آپ نے سنا تو فرمایا :" دَعِیْ ھٰذَا وَقُوْلِیْ ماَ أَنْتِ تَقُوْلِیْنَ " یہ نہ کہو، بلکہ وہ کہو جو تم پہلے کہا کرتی تھی۔
محبت وشفقت کا یہی برتاؤ حضرات صحابہ کرام 7 کا تھا، وہ بھی ہر معاملے میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا پرتو تھے، سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق آتا ہے کہ :
عن عقبۃ بن الحارث رضی اللّٰہ عنہ قال : رَأَیْتُ أَبَا بَکَرٍ رضی اللّٰہ عنہ وَحَمَلَ الْحَسَنَ
|