ہے اس سے کہیں زیادہ اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں پر مہربان ہے"۔
لیکن کچھ باپوں کا رویّہ اپنی اولاد سے انتہائی خشک اور محبت وشفقت سے خالی رہتا ہے، وہ اپنے باپ ہونے کا صرف یہی ایک سب سے بڑا حق سمجھتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ سختی سے نپٹا جائے اور ان کے ساتھ تلخ رویّہ اپنایا جائے، بسا اوقات والد کے اس معاندانہ سلوک سے عاجز آکر بچے پہلے تو احتجاج کرتے ہیں، جب احتجاج سے مطلب براری نہیں ہوتی تو پھر" تنگ آمد بجنگ آمد " کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغاوت پر مائل ہوجاتے ہیں۔ بعد کے حالات تو اس قدر بدتر ہوجاتے ہیں کہ وہ باپ کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑے ہوجاتے ہیں بلکہ مار پیٹ سے بھی دریغ نہیں کرتے، ایسے بچے جو اس قدر کشیدگی کے ماحول میں پرورش پاتے ہیں، آگے چل کر معاشرہ کے لئے ایک مصیبت بن جاتے ہیں، رحم و کرم کے جذبات سے تو وہ عاری ہی رہتے ہیں، ساتھ ہی بُری صحبت اور بازاری لوگوں کا میل جول انہیں مجرم بنا دیتا ہے، وہ اپنی زندگی کی ابتداء چھوٹے موٹے جھگڑوں اور چوریوں سے کرتے ہیں،پھر رفتہ رفتہ اپنے علاقے کے غنڈے اور بد معاش بن کر سارے معاشرے کے لئے دردِ سر بن جاتے ہیں۔
اسلام سے قبل زمانہء جاہلیت میں لوگ بچوں سے محبت کو، نفرت کی نگاہ سے دیکھتے اور چاہتے کہ بچوں سے جس قدر سختی کا برتاؤ کیا جاسکتا ہے کیا جائے، تاکہ بچہ آگے چل کر شقی القلب اور ظالم واقع ہو اور میدانِ جنگ میں اپنے دشمنوں کے ساتھ وہ قساوتِ قلبی کا مظاہرہ کرے کہ دیکھنے والوں کے رونگٹھے کھڑے ہوں،اوربد نصیبی سے اس پر فخر بھی کیا جاتا تھا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک مجلس میں اس طرح کے لوگ
|