آپ نے مجھ سے پوچھا : تمہارا نام کیا ہے ؟ میں نے کہا : میرا نام حَزن ( سختی، رنج و غم ) ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم سھل ( نرمی اور آسانی ) ہو، میں نے کہا : میرے باپ نے میرا جو نام رکھا ہے میں اسے بدلنا نہیں چاہتا۔سعیدؒ فرماتے ہیں کہ : ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ ماننے سے، اور اس نام کی تاثیر سے) یہی سختی اور رنج وغم ہماری زندگی میں ہمیشہ کے لئے آگیا۔
عن یحیی بن سعید أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ لِرَجُلٍ : مَا اسْمُکَ ؟ قَالَ: جَمْرَۃُ۔ قَالَ : إِبْنُ مَنْ ؟ قَالَ : إِبْنُ شِھَابٍ۔ قَالَ مِمَّنْ ؟ قَالَ مِنْ الْحَرْقَۃِ۔قَالَ : أَیْنَ مَسْکَنُکَ ؟ قَالَ بِحَرِّۃِ النَّار۔ قَالَ بِأَیَّتِھَا ؟ قَالَ بِذَاتِ لَظٰی۔ قَالَ عَمَرُ : أَدْرِکْ أَھْلَکَ فَقَدْ ھَلَکُوْا وَاحْتَرَقُوْا۔ فَکَانَ کَمَا قَالَ عمر رضی اللّٰہ عنہ۔( مؤطا إمام مالک )
تر جمہ : یحیی بن سعید کہتے ہیں : سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شخص سے پوچھا : تمہارا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا :"جَمْرَہْ" ( چنگاری ) پوچھا : تمہارے باپ کا نام کیا ہے ؟ اس نے کہا : "شِھَاب" (شعلہ )ہے،پوچھا : کس قبیلے سے تعلق رکھتے ہو ؟ کہا:"حَرْقَہْ" ( حرارت ) سے، پوچھا : کہاں کے باشندے ہو ؟ کہا : "حَرَّۃَ النَّارِ" ( سیاہ کنکریلی جھلسی ہوئی زمین )کا، فرمایا: یہ کونسے علاقے میں ہے ؟ کہنے لگا : "ذَاتَ لَظٰی" ( آگ کی لپیٹ ) میں، آپ نے جب اس کی یہ باتیں سنیں تو فرمایا: تم فورًا اپنے اہل وعیال کے پاس پہنچو، اس لئے کہ وہ ہلاک ہوگئے اور جل گئے ہیں، وہ جب اپنے علاقے میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ جیسا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا ویسا ہی حادثہ پیش آیا۔
|