Maktaba Wahhabi

299 - 305
سے اصلاح کی کوششیں بار آور ثابت ہوئیں اور دونوں میاں بیوی نا راضگی ختم کرکے پھر سے زندگی کے دوراہے پر محبت سے گامزن ہونا چاہیں تو شریعت نے شوہر کے لئے اب بھی دروازے کُھلے رکھے ہیں کہ دونوں طلاقوں کے بعد اگر وہ چاہے تو رجعت کے ذریعے بیوی کو نکاح میں باقی رکھے، اور یاد رہے کہ اس ساری مدت میں عورت شوہر کے گھر میں ہی مقیم رہے گی، میکے نہیں جائے گی، اس سے میاں بیوی کے درمیان تناؤ کو ختم کرنے کے سارے مواقع موجود ہوتے ہیں اور بیوی شوہر کے ایک ہلکے سے اشارے یا عمل (جماع )پر اس کی زوجیت کی طرف پلٹ سکتی ہے، لیکن اگر اب بھی دونوں نے تناؤ دار اور سخت رویہ اپنایا تو شوہر بیوی کو تیسرے طہر میں تیسری طلاق دے کر اپنی زوجیت سے خارج کردے، اس کے بعد عورت اپنے سابق شوہر کے گھر میں ایک دن کے لئے بھی رہ نہیں سکتی۔اس لئے کہ فرمان باری تعالیٰ ہے : ﴿ اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ تَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ﴾ (البقرۃ : 229) ترجمہ :"طلاقیں دو مرتبہ ہیں، پھر یا تو اچھائی کے ساتھ روکنا ( لوٹالینا ) یا عمدگی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے"۔ طلاق دینے کے وقت شریعت نے شوہر پر واجب کیا کہ وہ اپنی سابقہ بیوی کو کچھ ساز وسامان اورنقدی عدّت کے خرچ کے طور پر دے، تاکہ طلاق یافتہ عورت روپیوں کی مجبوری کی وجہ سے مشقت نہ اٹھائے اور اس کے ساتھ اس کی اولاد بھی فاقہ کشی پر مجبور نہ ہو۔ فرمان باری ہے :﴿ وَمَتِّعُوْہُنَّ عَلَی الْمُوْسِعِ قَدْرَہُ وَعَلَی الْمُقْتَرِ قَدْرَہُ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ﴾ ترجمہ : ہاں انہیں کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچاؤ، خوشحال اپنی طاقت کے مطابق اور تنگ
Flag Counter