Maktaba Wahhabi

294 - 305
یتیموں سے حسن سلوک کے متعلق ان کے علاوہ اور بے شمار فرمودات ہیں جس میں کہ اﷲتعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں، رشتہ داروں، اور قرابت داروں پر یتیموں سے محبت وشفقت اور انہیں کھلانے پلانے، ان پر رحم کرنے اور خرچ کرنے کو فرض کیا ہے، تاکہ یہ محروم ومجبور طبقہ محبت وشفقت سے مالا مال ہوکر ضائع وبرباد ہونے سے بچ جائے۔ خیر القرون ان تعلیمات پر مکمل عمل کی روشن مثال ہیں، مشہور محدث عبد اﷲ بن مبارک رحمۃ اﷲ علیہ بہت بڑے تاجر بھی تھے، تجارت سے جو کچھ کماتے وہ سب فقراء، مساکین، طلباء اور ایتام پر لُٹاتے تھے، سال میں ایک لاکھ دینار سے زیادہ صدقہ وخیرات فرماتے، ایک مرتبہ اپنے شہر"مرو "سے حج پر جارہے تھے، ایک آبادی کے قریب پہنچے توایک پرندہ جو آپ کے ساتھ تھا مر گیا، آپ نے اسے گُھوڑ میں پھینکنے اور قافلے کو آگے بڑھنے کا حکم دیااور خود کسی ضرورت کے سبب پیچھے رہ گئے، تھوڑی دیر بعد آپ نے دیکھا کہ ایک بچی ایک گُھوڑ کے پاس آئی اور وہاں سے کچھ اُٹھا کر دوڑنے لگی، آپ نے اس بچی کو بلایا، وہ ڈرتے ڈرتے آئی، آپ نے فرمایا : " تمہارے ہاتھ میں کیا ہے ؟"بچی نے جھجکتے ہوئے ہاتھ کھولا تو اس میں مردہ چڑیا موجود تھی، آپ نے بچی سے نہایت شفقت سے پوچھا :"بیٹی ! آپ نے یہ مردہ چڑیا کیوں اُٹھایا ؟" بچی نے روتے ہوئے جواب دیا :" چچا جان ! بات یہ ہے کہ میں اور مجھ سے ایک چھوٹا بھائی ہے، ہم دونوں یتیم ہیں، ماں باپ دونوں اﷲ میاں کو پیارے ہوچکے ہیں، کئی دنوں سے فاقہ پر گذارہ ہورہا تھا، کسی سے مانگتے ہوئے شرم آرہی تھی، اس لئے اس گُھوڑ سے مردہ چڑیا اٹھائی ہوں، تاکہ اس
Flag Counter