اگر کسی بیوی کو کنجوس شوہر سے واسطہ پڑے تو وہ اپنے بچوں کے لئے اپنے شوہر سے اسے بتلائے بغیر اتنا مال لے سکتی ہے جو اس کے بچوں کے لئے کافی ہوسکے۔
٭ ہندہ بنت عتبہ رضی اللہ عنہا( زوجہ ابو سفیان رضی اللہ عنہا ) ایک مرتبہ خدمت نبوی میں آئیں اور عرض گذار ہوئیں : " اے اﷲ کے رسول ! (صلی اللہ علیہ وسلم ) ابو سفیان بخیل آدمی ہیں، وہ مجھے اتنا نہیں دیتے جتنا میرے اور میرے بچوں کیلئے کافی ہو، سوائے اس کے جسے میں انکی لا علمی میں لے لوں۔ (تب میرے لئے کافی ہوتا ہے) فرمایا : دستور کے مطابق جو تمہارے اور تمہارے بچوں کیلئے کافی ہوسکے، اتنا بلا اجازت لے سکتی ہو ( بخاری )
٭مرد کی بخیلی کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ محمود مہدی استنبولی فرماتے ہیں :
کہتے ہیں :" ایک عورت اپنے شوہر سے جھگڑا کر رہی تھی، کیونکہ وہ خرچ دینے میں حد سے زیادہ تنگی کرتا تھا۔ عورت نے کہا :" اﷲ کی قسم ! چوہے بھی صرف وطن کی محبت کے سبب اس گھر میں پڑے ہوئے ہیں، ورنہ خوراک انہیں پڑوس کے گھروں سے مل جاتی ہے "۔
شوہر کی بخیلی اور اخراجات میں سخت گیری کا مناسب حال واقعہ جو علامہ إبن الجوزی رحمہ اﷲ نے اپنی کتاب" الأذکیاء " میں لکھا ہے :
٭" مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرے عرب نوجوان کا منگنی کا پیغام ایک ہی وقت میں ایک عورت کے پاس پہنچا۔ نوجوان خوب صورت تھا۔ عورت نے دونوں کو طلب کیا اور کہا :" تم دونوں نے منگنی کا پیغام بھیجا ہے، لہٰذا میں سنے اور دیکھے بغیر کسی کو کوئی جواب نہیں دوں گی، اس لئے اگر چاہو تو فلاں وقت حاضر ہوجاؤ". دونوں منگیتر مقررہ وقت پر آئے۔ عورت نے دونوں کو ایسی جگہ بٹھایا جہاں سے وہ
|