افتاد آئی یا سلاطین اور بادشاہوں نے اسلام کے کسی مسلمہ عقیدے سے انحراف کیا تو وہ ان سلاطین کے جنکی گردنیں کجکلاہی میں جبّاروں وقہّاروں کی پابہ رکاب تھیں، سینہ سپر ہوکر کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ ان کجکلاہوں کو ان غربت وافلاس پر قانع اور اپنے بوریا وچٹائی کے پابند جلیل القدر واولو العزم ہستیوں کے آگے نہایت ہی عاجزی و مسکنت کے ساتھ سرِ تسلیم خم کرنا پڑا۔ تاریخ کی ان عظیم ہستیوں کو دنیا، امام دار الہجرۃ مالک بن انس، امام أھل السنّۃ احمد بن حنبل، شیخ الإسلام احمد بن تیمیہ، شیخ الإسلام محمد بن عبد الوہاب اور مجاہد فی سبیل اﷲ شاہ اسماعیل شہید رحمہم اﷲ کے ناموں سے جانتی ہے۔ یہ شخصیتیں جن عہدوں سے متعلق تھیں ان میں علم عام نہیں ہوا تھا، عربی مدارس کا وہ جال نہیں بچھا تھاجو اب ہے، طلباء کیلئے وہ سہولتیں نایاب تھیں جنکی آج بہتات ہے۔ بلکہ انہیں اپنے معاش کی تدبیریں خود کرنی پڑتی تھیں، دن بھر کی محنت وتھکان کے بعد فرصت کی جو چند ساعتیں ملتیں ان میں، کبھی چاندنی راتوں میں، کبھی مسجدوں کے محراب تلے ٹمٹماتے ہوئے چراغوں کی روشنی میں اساتذہء فن کے آگے گھٹنے ٹیکے جاتے، ان کی خدمت کی جاتی، تب جاکر دو چار الفاظ سبق مل پاتا۔ لیکن ان سے جو علماء اٹھے انہوں نے اپنے علم وعمل سے ایک دنیا کو روشنی عطا کی اور اسباب وسہولیات کے عدمِ وجود کے باوجود عربی، فارسی اور اردو کے علاوہ دنیا کی ہر اہم زبان میں تفاسیر اور شروح احادیث کی تصنیف وتالیف کا ایک ڈھیر لگادیا۔ لیکن موجودہ دور میں یہ کیا بلا ہے کہ عربی مدارس سے علم دین جتنا پھیل رہا ہے عمل کی برکتیں اتنی ہی سمٹ رہی ہیں، اسلام کا جتنا پرچار ہوا اخلاق اتنے ہی غائب، مسجدیں جتنی آباد ہوئیں دل اتنے ہی ویران ہوگئے ؟حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ علم وعمل کی برکتیں پہلے سے کہیں زیادہ عام ہوتیں اورمسلم معاشرے میں تقوی وآخرت میں باز پرسی کا احساس پہلے سے کہیں
|