بچوں کی حمایت میں ایک لفظ تک کہنے کی توفیق نہیں ملی جو قلّت غذا کا شکار ہوکر موت کا لقمہ بنے، ان مجبور وبے بس ماں باپ کو کھانے کا ایک لقمہ پہنچانے کی فرصت نہیں ملی جو بھوک کا شکار ہوکر اپنے ہی مردہ بچوں کی لاشوں کو کھا گئے، وہ امریکہ اور یورپ جو انسانیت کیلئے مگر مچھ کے آنسو بہاتا ہے، جو دنیا کے 80% وسائل وذرائع آمدنی سے مالا مال ہے، اس نے دنیا میں بھکمری، غربت اور فقر وفاقہ کو برقرار رکھنے کیلئے لاکھوں ٹن اناج کو سمندر میں ڈبو دیا، برازیل نے 1975 میں پچاس ملین ٹن گیہوں کے ذخیرے کو آگ لگا کر جلا دیا اور یورپی ممالک کے مشترکہ غذائی مارکیٹ نے پچاس ملین ڈالر اپنی ضرورت سے زیادہ اناج اور زرعی پیداوار کی تباہی کیلئے مختص کیا،یہ صرف اسلئے کہ انکی پیداوار کی قیمت عالمی منڈی میں گرنے نہ پائے۔جبکہ اسی سال ایشیا اور افریقہ کے مختلف ممالک میں 20 تا 100 ملین انسان اناج کے ایک ایک دانے کو ترس رہے تھے اور 460 سے 1000ملین لوگ قلّت غذا کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا شکار بن چکے تھے۔ اس وقت کی غذا اور زراعت کی عالمی تنظیم نے اپنی ایک رپورٹ میں ہر ہفتہ تیس لاکھ لوگوں کے بھوک سے مرنے کا خدشہ ظاہر کیا تھا۔ اور آج بھی امریکہ کے کسان،گوشت کے عالمی مارکیٹ میں اپنے بر آمد گوشت کی قیمت برقرار رکھنے کیلئے،ہر سال لاکھوں کی تعداد میں بیل قتل کرکے زمین میں دفن کردیتے ہیں۔[1] لیکن بھوک کی وجہ سے چوہے بلّیوں کو کھاجانے والے انسانوں تک گوشت کا ایک ٹکڑاپہنچانے کی انہیں توفیق نہیں ملتی۔جہاں پر غذا رسانی کا کچھ کام عیسائی مشنریاں انجام دے رہی ہیں، ان بھوکوں پیاسوں سے ہمدردی یا محبت کی بنا پر نہیں، بلکہ اس امداد وتعاون کے پردہ میں عیسائیت کے پرچار، اپنے مذہب کی تبلیغ واشاعت کے
|