" بیرحاء " ہے، اور یہ اﷲ کی راہ میں صدقہ ہے، میں اس کے اجر کا اﷲ سے طالب ہوں، اسے آپ جہاں مناسب سمجھیں وہاں لگادیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اسے اپنے قرابت داروں میں تقسیم کردیں۔ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچیرے بھائیوں میں تقسیم کردیا۔ ( متفق علیہ )
اسلام نے کافر رشتہ داروں کے ساتھ بھی نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسماء بنت ابی بکر ر ضی اﷲ عنہما کو ان کی کافرہ ماں کی خاطر کرنے کا حکم دیا۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے انہیں تحفہ میں دی گئی ایک چادر کو اپنے مشرک بھائی کے لئے ہدیۃً مکہ روانہ کیا۔
لیکن افسوس کہ آج مسلمانوں کے تعلقات زیادہ تر اپنے رشتہ داروں سے ہی کشیدہ ہیں، یہ کشیدگی اکثر اوقات عداوت اور دشمنی بھی پیدا کردیتی ہے جس کے نتیجے میں سازشیں، جھوٹ، دوغلا پن، حسد، بغض، کینہ، نفرت، جادو منتر اور دشمنی عام سی بات ہوگئی ہے، انسان غیر کو تو قریب کرنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا لیکن اپنوں کے سایے سے بھی بھاگنے کی کوشش کرتا ہے، اسی لئے کسی دل جلے نے کہا تھا
مجھے غیروں کا ہر اک ظلم گوارہ لیکن !
مرے اﷲ مجھے اپنوں سے بچائے رکھنا
اس صورت حال میں والدین سے التماس ہے کہ بچوں کے دلوں میں قرابت داروں کے خلاف نفرت ودشمنی پیدا کرنے کے بجائے ان کے سینوں میں صلہ رحمی کی اہمیت کو راسخ کریں تاکہ بچے کے دلوں میں آئندہ چل کر رشتہ داروں کے لئے نفرت کے دھتوروں کے بجائے محبت وشفقت کے گلاب پیدا ہوں۔
|