مخاطب کیا تو یہی لفظ" یٰٓاَبَتِ " سے کیا۔ ارشاد قرآنی ہے :
﴿اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَیْتُہُمْ لِیْ سَاجِدِیْنَ ﴾ (یوسف :4)
ترجمہ : جب کہ یوسف نے اپنے باپ سے کہا : ابّا جان ! میں نے گیارہ ستاروں اور سورج چاند کو مجھے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
ان آیات سے معلوم ہوا کہ والد کو خطاب کرنے کے لئے پیارا سے پیارا جو لفظ ہے وہ قرآن کے بیان کے مطابق" یٰٓاَبَتِ" ابّا جان ہے۔
لیکن افسوس !آج کل کے فیشن زدہ مسلمانوں نے اس فطری سادگی سے منہ موڑتے ہوئے مغرب کے بے روح اور تکلفّات سے بھرے ہوئے الفاظ سے اپنے باپوں کو مخاطب کرنا شروع کیا، پہلے"ڈیڈی" پاپا"کہنے لگے پھر اس کا مخفف "پا" بناڈالا، اور وہ" ابّا جان " "ابّو جی"بابا " اور" ابّا حضور " جیسے تعظیم وتکریم اور محبت وشفقت سے بھرپور، اور ہماری تہذیبی ورثہ سے مالا مال الفاظ کو دورِ تنزلی اور پسماندگی کے الفاظ سمجھنے لگے، ہم اس روشنیء طبع کو مسلمان معاشرہ کے لئے بلا تصور کرتے ہیں اور اکبر الہ آبادی کی زبان میں :
ہم ان تمام کتابوں کو قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
جنہیں پڑھ کر بچے اپنے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
ہم تمام امّت اسلامیہ کو چاہے وہ والدین ہوں یا اولاد،دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو اس بے روح تہذیب، بے رونق الفاظ کے خول سے باہر نکالیں، اسلامی اقدار کو اور اس کے قابل فخر ورثہ کو زندہ کرنے کی کوشش کریں،جس پر چل کر
|