سے کہا : اﷲ آپ کومزید نیک بنائے ! یہ بدّو لوگ ہیں تھوڑی سی چیز پر خوش ہوجاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : اس شخص کا باپ میرے والد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتا تھا اور میں نے رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے : سب سے بہترین نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے چاہنے والوں کو ملائے رکھے۔ ( مسلم )
5۔اولاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے والدین، آباء واجداداور مرحومین کے لئے برابر ایصالِ ثواب کرتی رہے، عام مسلمانوں نے ایصال ثواب کے نام پر بدعات وخرافات کی بھرمار کر رکھی ہے، دسواں، بیسواں، چہلم، برسی، تیجہ، قُل، اور اس جیسی بے شمار رسومات کا بازار گرم کیا ہے، بلکہ ایصالِ ثواب کا مسنون طریقہ وہی ہے جو سرورِ کائنات جناب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اسوہ سے ہمیں تعلیم دی ہے ٗ اور وہ یہ کہ مرحومین کے نام پر صدقہ وخیرات کیا جائے ٗ صدقۂ جاریہ، مثلًا:مسجد، مدرسہ بنایا جائے،کنواں کھدوایاجائے اور ٹیوب ویل یا سبیل لگائی جائے۔
6۔عن إبن عبّاس رضی اللّٰہ عنہما أَنَّ رَجُلًا قَالَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! إِنَّ أُمِّیْ تُوُفِّیَتْ وَلَمْ تُوْصِ، أَفَیَنْفَعُہَا أَنْ أَتَصَدَّقُ عَنْہَا ؟ قَالَ : نَعَمْ ( الأدب المفرد : باب : برّ الوالدین بعد موتہما ) عبد اﷲ بن عبّاس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں آکر عرض کیا : اے اﷲکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میری والدہ وفات پاگئیں، اور انہوں نے اپنی جانب سے ( صدقہ وخیرات کرنے کی ) کوئی وصیت نہیں کی، اگر میں ان کی جانب سے صدقہ کردوں تو کیا انہیں اس کا فائدہ ہوگا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہاں ہوگا۔
7۔یا کنواں کھدوایا جائے ٗ یاپانی کی سبیل لگائی جائے۔ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا
|