Maktaba Wahhabi

225 - 305
گذرتی ہے، جس میں اس کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہوجاتا ہے، بسا اوقات عورت کی جان بھی اس میں چلی جاتی ہے۔ اس کے بعد رضاعت کا مرحلہ پیش آتا ہے جس میں ماں اپنے جسم کے خون کو میٹھے دودھ کی شکل میں اپنے بچے کے حلق میں اتارتی ہے اور اس کی تربیت اور پرورش میں باپ سے کہیں زیادہ حصّہ لیتی ہے ۔ جیسا کہ ارشادِ ربّانی ہے :﴿ وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ ج حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَہْنًا عَلٰی وَہْنٍ وَّ فِصٰٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْ لِیْ وَلِوَالِدَیْکَ ط اِلَیَّ الْمَصِیْرُ﴾ ( لقمان : 14) ترجمہ : ہم نے انسان کو اپنے والدین ( کا حق پہچاننے ) کی تاکید کی ہے، اس کی ماں نے اسے ضعف پر ضعف اٹھاکر اپنے پیٹ میں رکھا اور دو سال اس کے دودھ چُھوٹنے میں لگے۔ ( ہم نے اسے نصیحت کی کہ ) میرا شکر کر اور اپنے ماں باپ کا شکر بجا لا، میری ہی طرف پلٹنا ہے۔ 2)اﷲ رب العزّت نے ماں میں فطری طور پر اولاد کے لئے زیادہ محبت وشفقت، نرم دلی اور مہربانی رکھا ہے، جب کہ باپ میں فطری طور پر سختی اور تندی. اولاد باپ سے ڈرتی ہے اور ماں سے کچھ زیادہ ہی شوخ وبے باک رہتی ہے، کبھی یہ شُوخی گستاخی کی حدود کو بھی چھونے لگتی ہے، اسی لئے اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کے حق کو خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمایا تاکہ انسان ماں کے احترام کے معاملے میں کوتاہی اور پہلو تہی نہ کرے۔ عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ قال : جَائَ رَجُلٌ إِلَی النَّبِیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فَقَالَ : یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ ! مَنْ أَحَقُّ بِحُسْنِ صَحَابَتِیْ ؟ قَالَ : أُمُّکَ، قَالَ : ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ : أُمُّکَ، قَالَ : ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ : أُمُّکَ، قَالَ : ثُمَّ مَنْ ؟ قَالَ : أَبَاکَ۔
Flag Counter