فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، جوچیز اسے شک میں ڈالتی ہے وہ مجھے بھی مشکوک ہے، اور جو چیزاسے تکلیف پہنچاتی ہے وہ میرے لئے بھی اذیّت ناک ہے۔
6۔ایک اور روایت میں یوں ہے :" إِنَّمَا فَاطِمَۃُ بُضْعَۃٌ مِنِّیْ، وَأَنَا أَکْرَہُ أَنْ تُفْتَنَ، وَذَکَرَ أَبَا الْعَاصِ بْنَ الرَّبِیْعِ فَأَحْسَنَ عَلَیْہَ الثَّنَائَ، وَقَالَ إِنَّہُ لاَ یُجْمَعُ بَیْنَ بِنْتِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وَبَیْنَ بِنْتِ عَدُوِّاللّٰہِ "۔
ترجمہ : فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے، مجھے یہ نا پسند ہے کہ اسے آزمائش میں ڈالا جائے، پھر آپ نے اپنے بڑے دامادأبو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کا ذکر خیر فرمایا، پھر فرمایا : یہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اللہ کے دشمن کی بیٹیاں ایک شخص کی زوجیت میں جمع ہوں۔(مسند احمد :18931 ) چنانچہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ناراضگی کے ڈر سے ہی علی رضی اللہ عنہ نے ان کی زندگی میں دوسرا نکاح نہیں کیا۔
لیکن افسوس !ہمارے معاشرے میں بھی بیٹوں اور بیٹیوں میں تفریق اور بچوں کو بچیوں پر ترجیح دینے کی وہی جہالت موجود ہے جو کبھی عربوں میں تھی،کتنے لوگ ایسے ہیں کہ بیٹے کی پیدائش پر تو لڈّو بانٹتے پھرتے ہیں لیکن لڑکی کی پیدائش پر ان کا منہ لٹک جاتا ہے، بیویوں سے روٹھ جاتے ہیں، نہ صرف روٹھتے ہیں بلکہ کئی ایسے اشخاص ہیں جنہوں نے لڑکیوں کی پیدائش پر اپنی بیویوں کو طلاق دے دی، ہزاروں وہ ہیں جنہوں نے حالتِ حمل میں اپنی بیویوں کی طبّی جانچ کروائی اور جب انہی یہ پتہ چلا کہ آنے والا مہمان لڑکا نہیں بلکہ لڑکی ہے، انہوں نے اپنی قساوتِ قلبی سے حمل ساقط کروادیا، ایسے کئی واقعات میں تو ان گنت عورتوں کی قیمتی جانیں بھی ضائع ہوگئیں، یہ بالکل وہی جہالتِ کبریٰ ہے جس میں ایامِ بعثت سے پہلے عرب
|