مسلسل چکّر آنے لگے، میں نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی، مگر میں نیم بے ہوشی کے عالم میں تھی کہ اچانک دو سائے کیبن میں داخل ہوئے اور اس کے بعد مجھے کوئی ہوش نہیں تھا کہ میرے ساتھ کیا ہوا، تقریبا دیڑھ گھنٹے کے بعد میں ہوش میں آئی تو مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میرے ساتھ کیا ہوا،میں نے گھبراہٹ کے عالم میں کیبن کا دروازہ کھولا اور باہر کی طرف بھاگی، اچانک کاؤنٹر پر کھڑے شخص نے جو کہ دروازے کے بلکل ساتھ ہی لگا کھڑا تھا، دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ ": دیکھو! یہاں جو کچھ ہوا ہے کسی کو اس کی خبر نہ ہو " میں گرتی پڑتی باہر نکل آئی اور یہ وہی وقت تھا جب آپ نے مجھے اٹھاکر گھر پہنچایا "
ایک ہفتہ پہلے کی بات ہے میں کالج سے گھر کے لئے نکلی، ذرا سا فاصلہ طے کیا تھا کہ ایک موٹر بائیک والا میرے قریب آکر رُکا، اس نے مجھے ایک لفافہ پکڑایا اور یہ جا وہ جا۔ اس میں ایک خط اور کچھ تصویریں تھیں، جب میں نے تصویریں دیکھیں تو میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، کیونکہ وہ سب کی سب میری تھیں، اپنی نیم برہنہ تصویریں دیکھ کر میری حالت"بدن میں کاٹو تو لہو نہیں"والی تھی۔ خط میں ایک پتے کے ساتھ یہ عبارت درج تھی: " اس پتے پر پہنچ جاؤ ورنہ یہ تصویریں تمہارے گھر بھی بھجوائی جاسکتی ہیں " (روزنامہ"جنگ "سنڈے میگزین یکم دسمبر 2002 )
انٹر نیٹ کی آگ نے اس معصوم بچی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اﷲ نہ کرے کہ یہ منحوس آگ ہمارے بچوں اور بچیوں کے خرمنِ زندگی کو بھسم نہ کردے!
اے چشمِ اعتبار ذرا دیکھ تو سہی
یہ گھر جو جل رہا ہے کہیں تیرا گھر نہ ہو
|