گذرے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک عورت نے ان کی عدالت میں اپنے شوہر کے خلاف یہ دعوی دائر کیا کہ اس نے اس کے مہر کے پانچ سو دینار ادا نہیں کئے ہیں، شوہر نے اس سے صاف انکار کردیا کہ اس کے ذمّہ اس کا مہر باقی ہے، اس پر اس نے دو گواہ بھی پیش کردئے۔ قاضی نے ایک گواہ بلایا اور کہا :" تم اٹھ کر اس عورت کا چہرہ دیکھو، تاکہ تمہیں گواہی دینے میں تأمل نہ ہو" وہ اٹھ کر جب اس عورت کے پاس جانے لگا تو اس کے شوہر نے پوچھا :" تمہیں اس سے کیا غرض ہے ؟ اسے قاضی کا حکم سنایا گیا کہ جو ہورہا ہے وہ قاضی کے حکم سے ہورہا ہے اور گواہ کا عورت کو دیکھنا ضروری ہے۔ شوہر کی غیرت نے برداشت نہیں کیا کہ اس کی بیوی کا چہرہ لوگوں کے سامنے کُھلوایا جائے، وہ چیخ پڑا اور کہنے لگا : " میں قاضی کے سامنے اقرار کرتا ہوں کہ جس مہر کا وہ مجھ سے مطالبہ کررہی ہے وہ میرے ذمّے ہے، اس لئے اب اس کا چہرہ نہ کھلوایا جائے۔" عورت نے جب یہ سنا کہ صرف میری بے پردگی کو برداشت نہ کرتے ہوئے میرا شوہر اس خطیر رقم کو ادا کررہا ہے تو اس نے بھی قاضی کو خطاب کرتے ہوئے کہا :" آپ گواہ رہیں کہ میں نے اپنا یہ حق مہر معاف کرکے اسے دنیا اور آخرت میں بری کردیا۔"قاضی نے جب عورت کی یہ اعلیٰ ظرفی دیکھی تو کہا :
" اس بات کو مکارم ِ اخلاق میں لکھ لو"( المنتظم لإبن جوزی: 12؍403 )
لیکن افسوس ! آج مسلم گھرانوں میں اسلامی و ایمانی غیرت کا گراف تیزی سے نیچے گر رہا ہے، غیرت کا تقاضہ یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی کی طرف اٹھنے والی ہر آنکھ کو پھوڑدے، جب بیوی خود کسی مردسے نظر بازی کرے تو اس کا خون کھول پڑے اور اپنی بیوی کو بھی اسکی سزا دینے سے نہ چُوکے، لیکن افسوس کہ آج فحش مناظر اکثر
|