عِبَادَۃِ الْعِبَادِ إِلٰی عِبَادَۃِ اللّٰہِ وَمِنْ ضِیْقِ الدُّنْیَا إِلٰی سَعَتِھَا وَمِنْ جَوْرِ الْأَدْیَانِ إِلٰی عَدْلِ الْإِسْلَامِ "( البدایۃ والنہایۃ لإبن کثیر : ج 3)
تر جمہ : اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اسلئے بھیجا ہے کہ ہم اسکے بندوں کو بندوں کی بندگی سے اﷲ کی عبادت کی طرف لائیںاور دنیا کی تنگی سے انہیں اسکی وسعت و کشادگی عطا کریں اور ادیان کے ظلم وستم سے بچا کر انہیں اسلامی عدل و انصاف عطا کریں۔
اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو کفّار ومشرکین کے مقابلے میں ہمیشہ حالتِ جنگ میں رہنے کا حکم دیا۔ فرمان الہٰی ہے:﴿وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَعَدُوَّکُمْ وَاٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ لَا تَعْلَمُوْنَہُمْ ج اَللّٰہُ یَعْلَمُہُمْ﴾( الأنفال : 60)
تر جمہ : تم لوگ جہاں تک تمہارا بس چلے، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے انکے مقابلے کیلئے مہیّا رکھو، تاکہ اس کے ذریعے تم اﷲ اور اپنے دشمنوں کو، اور ان دشمنوں کو جنہیں تم نہیں جانتے بلکہ اﷲ جانتا ہے خوف زدہ کرو۔
یہ صرف قوت و دفاع کے مقابلے کی ہی بات نہیں بلکہ امتِ اسلامیہ پر ضروری ہے کہ وہ ہر محاذ پر چاہے وہ معاشی ہو یا اقتصادی، سائنسی ہویا فوجی،ثقافتی اور تہذیبی، دینی ہو یا دنیوی، باطل اقوام سے ہر میدان میں سخت مقابلہ کرے اور اس چومکھی جنگ میں انہیں ہر محاذ پر پسپا کرنے کی کوشش کرے۔
البتہ وہ علوم جن سے سائنس، ٹیکنالوجی، طبّی، علوم وفنونِ حرب اور اس کے وسائل غیر مسلم اقوام سے سیکھے جاسکتے ہیں، کیونکہ یہ بھی اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان :
﴿ وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّۃ﴾ میں داخل ہیں، بلکہ رسول اﷲ
|