صد فی صد عمل آوری ہے، اس اکیسویں صدی میں ہر جوان اور بوڑھا، بچی اور بچہ، مرد وزن سب اسی کے شکار نظر آتے ہیں، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دین اور ضمیر کو فراموش کردیا گیا، اچھے اخلاق،اوراسلامی روایات کو دقیانوسیت سمجھ کر پسِ پشت ڈال دیا گیا، چند لمحات کی لذّت، ذلیل کرنے والی شہوت، اور حرام خواہشات پر ہماری نوجوان نسل سر کے بل دوڑ پڑی، کتنے ایسے ہیں جو حیا باختہ رقص و سُرود کو ترقی کی علامت سمجھ رہے ہیں، کتنے ایسے ہیں جو مرد وزن کے اختلاط کو دنیا کے ہر میدان میں آگے بڑھنے کا واحد ذریعہ قرار دے رہے ہیں، اور کتنے بے چارے ایسے ہیں کہ اعلی کارکردگی، بلند ہمّتی، محنت وکاوش کے سارے میدانوں کو چھوڑ کر صرف مغربی تہذیب وتمدن کی اندھی تقلید کو ہی معراجِ کمال جان رہے ہیں، اس طرح کے لوگوں سے ہم کہیں گے کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی :
کر بلبل وطاؤس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے طاؤس فقط رنگ
اس گندی تہذیب کو جن نوجوان لڑکے اور لڑکیوں نے اپنایا، وہ اپنی مردانگی اور نسوانیت سے ہاتھ دھوبیٹھے، لڑکوں نے اپنی چال میں لچک پیدا کی اور گفتار میں شیرینی، لباس میں چھچھورے پن کو طاری کرلیا، بال بڑھا لئے، اور لڑکیوں کی طرح ناز نخرے دکھانے میں ہی اپنا کمال جاننے لگے، ادھر صنف نازک نے اپنی نزاکت چھوڑ دی اور وہ چست جاموں،بے باک نگاہوں کے ساتھ مردوں کے کندھے سے کندھا ملاتے ہوئے،زندگی کے ہر میدان میں رواں دواں ہوگئی، حیا وشرم کو تج ڈالا، اور عفّت وعصمت کی تار وپود بکھیر دئے، اور اس بے حیائی اور آوارگی پر اتر
|