مدد مانگنے کے لئے ایک قبیلہ دار الخلافہ دمشق آیا، جب خلیفہ سے بات کرنے کا وقت آیا توشاہی رعب داب اور جاہ وجلال کے آگے کسی میں بات کرنے کی تو کجا، اس کا سامنا کرنے کی بھی ہمّت نہیں ہوئی۔ انہوں نے ہشام کو دیکھتے ہی راہِ فرار اختیار کی۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر" درواس بن حبیب " نامی ایک بچہ،جس کی عمر چودہ سال کی تھی، آگے بڑھا اور خلیفہ سے بات کرنے کی جراء ت کی۔ ہشام بن عبد الملک نے یہ دیکھ کر کہ ایک بچہ مجھ سے بات کرنے کی کوشش میں ہے تو اپنے دربان سے کہا :" اب تو مجھ سے بات کرنے کے لئے بچے بھی آنے لگے" یہ سن کر ورداس نے کہا :"امیر المومنین ! مجھ سے بات کرنے میں آپ کے لئے تو کوئی عار نہیں البتّہ آپ سے گفتکو کرنے سے مجھے شرف حاصل ہوجائے گا "۔ یہ سن کر ہشام نے کہا : کہو تم کیا کہنا چاہتے ہو ؟ اس بچے نے کہا : " یَا أَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ! أَصَابَتْنَا ثَلَاثُ سِنِیْنَ : فَسَنَۃٌ أَذَابَتِ الشَّحْمَ وَسَنَۃٌ أَکَلَتِ اللَّحْمَ، وَسَنَۃٌ نَقَّتِ الْعَظْمَ، وَفِیْ أَیْدِیْکُمْ فُضُوْلُ أَمْوَالٍ إِنْ کَانَتْ ِاللّٰه فَفَرِّقُوْہَا عَلٰی عِبَادِ اللّٰہِ الْمُسْتَحَقِّیْنَ لَہَا، وَإِنْ کَانَتْ لِعِبَادَ اللّٰہِ فَعَلَامَ تَحْبِسُوْنَہَا عَنْہُمْ ؟ وَإِنْ کَانَتْ لَکُمْ فَتَصَدَّقُوْا بِہَا عَلَیْہِمْ، فَإِنَّ اللّٰہَ یَجْزِی الْمُتَصَدِّقِیْنَ، وَلَا یُضِیْعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ "۔( تربیۃ الأولاد فی الإسلام : 306)
ترجمہ : امیر المومنین ! ہم تین سال سے قحط سالی کے شکار ہیں۔ پہلے سال نے ہماری چربی پگھلادی، دوسرے سال نے ہمارا گوشت کھا لیا، اور تیسرے سال کے قحط نے ہماری ہڈیوں کے گودے کو بھی ختم کرڈالا۔آپ کے پاس زائد مال پڑا ہوا ہے، اگر یہ اﷲ تعالیٰ کا ہے تو اسے اس کے مستحق بندوں میں بانٹ دیں، اگر اس کے بندوں
|