احتجاج ہو گا لیکن بقول علامہ ابو الطیب شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ:
’’اس حدیث کو طبرانی رحمہ اللہ نے ’’مسند الشامیین‘‘ میں بھی روایت کیا ہے اور اس کی سند میں سعید ’’المقبری‘‘ ہونے کی صراحت موجود ہے۔‘‘ [1]، واللہ اعلم۔
4- حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی تخریج
امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اپنی ’’سنن‘‘[2]میں ’’عن يونس بن راشد عن عطاء عن عكرمة عن ابن عباس أن النبي صلي اللّٰه عليه وسلم قال‘‘ کے مرفوع طریق سے یوں فرمائی ہے: ’’لَا تَجُوزُ وَصِيَّةٌ لِوَارِثٍ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْوَرَثَ‘‘ ابن قطان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ: ’’یونس بن راشد قاضی خراسانی ہے۔‘‘ ابو زرعہ کا قول ہے کہ ’’اس میں کوئی حرج نہیں‘‘، امام بخاری کا قول ہے کہ ’’مرجئی تھا۔‘‘ اس کی حدیث ان کے نزدیک ’’حسن‘‘ ہے۔ اس حدیث کو امام دارقطنی رحمہ اللہ نے عن عطاء عن ابن عباس بھی مرفوعا روایت کیا ہے، لیکن عطاء خراسانی نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا تھا۔ علامہ عبدالحق ’’الأحکام‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’وقد وصله يونس بن راشد فرواه عن عطاء عن عكرمة عن ابن عباس‘‘ [3]
یونس بن راشد کے متعلق امام نسائی فرماتے ہیں کہ ’’مرجیہ کے دعاۃ میں سے تھا۔‘‘ [4] حافظ ابن حجر کا قول ہے: ’’صدوق رمي بالإرجاء‘‘[5]مزید تفصیلی ترجمہ کے لئے حاشیہ [6] ملاحظہ کریں۔
اس حدیث کو امام ذہبی رحمہ اللہ نے ’’میزان الاعتدال‘‘[7]میں وارد کیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’’التلخیص الحبیر‘‘ میں اس کی سند کو ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ’’لَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ‘‘ کی تخریج اپنی ’’جامع الصحیح‘‘ کی کتاب ’’الوصایا‘‘ کے ترجمۃ الباب کے تحت بھی کی ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ حدیث اگرچہ لفظاً موقوف ہے لیکن چونکہ یہ نزول قرآن سے ماقبل حکم کی خبر اور اس کی تفسیر سے متعلق ہے لہٰذا مرفوع کا حکم رکھتی ہے۔‘‘ [8]
5- حضرت عمرو بن شعیب رضی اللہ عنہ کی حدیث کی تخریج
بھی امام دارقطنی رحمہ اللہ [9] نے عن سهل بن عمار ثنا الحسين بن الوليد ثنا حماد بن سلمة
|