کلام میں بھی موجود ہے، لہٰذا حدیث زیر بحث کو بہر اعتبار صحیح ہی قرار دیا جائے گا۔ اس بارے میں صحیحین کی روایات تلقی بالقبول کی وجہ سے صحت اور شہرت کے اس درجہ اور مرتبہ پر پہنچی ہوئی ہیں جنہیں محض اخبار آحاد کہہ کر مردود قرار نہیں دیا جا سکتا، لہٰذا متقدمین فقہائے سنت حتیٰ کہ مشہور معتزلہ اور متکلمین میں سے بھی کسی نے فنی طور پر اس پر نہ کوئی اعتراض کیا اور نہ ہی اس پر اشتباہ کا اظہار کیا تھا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ راوی کو جھوٹا کہنا نبی کو جھوٹا کہنے سے بہتر ہے تو یہ بات بھی نہایت سطحی ہے کیونکہ نبی کو جھوٹا کہنا تو باعث کفر ہے۔ محدثین کرام جنہوں نے اس حدیث کی صحت بیان کی ہے وہ نبی کو جھوٹا کس طرح کہہ سکتے ہیں جبکہ ان کا تمام تر انحصار ہی نبوت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی صداقت و حقانیت پر ہوتا ہے۔ محض احتمال کی بنیاد پر یہ سمجھ لینا کہ ’’راوی سے لفظی تعبیر میں سقم پیدا ہو گیا‘‘ ہو گا یا یہ ’’کسی راوی کے اختلال لفظی کا نتیجہ ہو‘‘ یا ’’کسی نہ کسی مرحلے پر اس کو نقل کرنے میں کسی راوی سے بے احتیاطی ضرور ہوئی ہے۔‘‘ وغیرہ، انتہائی لغو اور بے اصولی کی بات ہے۔ محدثین میں سے آج تک کسی سے بھی ایسی جرح منقول نہیں ہے۔ فن جرح و تعدیل کے اعتبار سے کسی راوی کو مجمل طور پر ضعیف کہہ دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ اس کے ضعف کا سبب مفصل، صریح اور غیر مبہم (مفسر) ہونا ضروری ہے۔ عقل بھی اس احتمال کو تسلیم کرنے سے انکار کرتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر اپنے مختلف اصحاب کے سامنے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان ’’کذبات‘‘ کا تذکرہ کیا ہو، پھر ان سب صحابہ سے جن جن لوگوں نے سنا اور آگے اپنے تلامذہ کو منتقل کیا ہو۔ بیک وقت ان سب کو سننے یا سمجھنے یا نقل کرنے میں سہو یا ’’بے احتیاطی‘‘ یا ’’تعبیری سقم‘‘ یا ’’اختلال لفظی‘‘ لاحق ہوا ہو – پس اس قسم کے احتمالات نہ عقلاً درست ہیں اور نہ نقلاً، بلکہ انہیں بے اصولی اور بے ضابطگی کی زندہ مثال کہا جا سکتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تیسرے کذب کے متعلق جناب مودودی صاحب کا قول ہے کہ اس کا ’’ذکر قرآن میں نہیں بلکہ بائبل کی کتاب پیدائش میں آیا ہے‘‘، گویا جو چیز قرآن میں مذکور نہیں وہ آں محترم کی نگاہ میں معتبر نہیں ہے، حالانکہ دین کا ایک بہت بڑا حصہ قرآن میں مذکور نہیں بلکہ احادیث کے ذریعہ ہی ہم تک پہنچا ہے۔ اگر مودودی صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ جن چیزوں کا تذکرہ قرآن میں نہیں بلکہ بائبل اور احادیث کی کتب میں موجود ہے تو وہ چیزیں اصلاً بائبل ہی سے منتقل ہو کر کتب احادیث میں جگہ پا گئی ہیں۔ ایک انتہائی خطرناک اور مہلک سوچ ہے۔ اگر اس واقعہ کا انکار محض اس بنیاد پر کیا جا سکتا ہے کہ اس کا تذکرہ ’’قرآن میں نہیں بائبل میں آیا ہے‘‘ تو میں پوچھتا ہوں کہ سفر مصر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت سارہ کی عمروں کے متعلق جو کچھ آں موصوف |