کا طواف کرو) وارد ہوا ہے تو کیا تمہیں قرآن میں سات مرتبہ طواف کرنے کا حکم نظر آتا ہے؟ اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعات پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے؟ کیا تم قرآن میں ’’لا جلب ولا جنب ولا شغار في الإسلام‘‘ کے سلسلے میں کوئی ذکر پاتے ہو؟ کیا تم نے نہیں سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے: [وَمَآ ءَاتَىٰكُمُ ٱلرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَىٰكُمْ عَنْهُ فَٱنتَهُوا۟ ۚ﴾؟ پھر حضرت عمران رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت ساری چیزوں کو سیکھا ہے جس کا تمہیں کوئی علم نہیں ہے۔‘‘
امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس واقعہ کا تذکرہ کرنے کے بعد مزید فرماتے ہیں کہ:
’’حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کی یہ گفتگو سن کر اس شخص نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’أحييتني أحياك اللّٰه‘‘ یعنی آپ نے (یہ بصیرت افروز بات کہہ کر) مجھے حیات نو (اور روشنی) عطا کی ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو حیات دراز عطا فرمائے۔‘‘ [1]
امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’سنت کو ناقابل التفات سمجھ کر اگر کوئی شخص صرف الفاظ قرآن کے لغوی معانی پر ہی عمل کرنے لگے تو وہ شخص گمراہ ہو جائے گا، کتاب اللہ سے جاہل رہ جائے گا، اندھیروں میں ہاتھ پیر مارنے والا ہو گا اور کبھی بھی راہ حق نہ پا سکے گا۔‘‘ [2]
علامہ طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’دینی اصول کے سلسلہ میں وہ شخص کیسے کچھ کہہ سکتا ہے جس نے دین کو کتاب و سنت کی بجائے لوگوں کے اقوال سے سیکھا ہو؟ اگر یہ شخص یہ گمان کرے کہ وہ دین، کتاب اللہ سے لے رہا ہے، اور وہ اس کی تفسیر، حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں لیتا اور نہ اس پر غور کرتا ہے اور نہ بسند صحیح ہم تک پہنچنے والے صحابہ و تابعین کے اقوال پر نظر رکھتا ہے (تو اسے جان لینا چاہیے کہ) ان راویوں نے ہم تک صرف قرآن کے الفاظ ہی کو نہیں پہنچایا ہے بلکہ اس کے معانی و مطالب کو بھی پہنچایا ہے۔ وہ لوگ قرآن کو بچوں کی طرح نہیں سیکھتے تھے بلکہ اس کے مفہوم کو بھی سمجھتے تھے۔ اگر کوئی شخص ان کا راستہ اختیار نہ کرے تو پھر اپنی رائے سے ہی بولے گا، اور جو اپنی رائے سے بولے اور اپنے گمان کو ہی دین سمجھے اور دین کو قرآن و سنت سے نہ سیکھے وہ گنہگار ہے، خواہ اس کی بات درست ہی ہو۔ اور جو دین کو کتاب اللہ اور سنت رسول سے سیکھے، اگر وہ غلطی بھی کرے تو ماجور ہو گا اور اگر صواب کو پا لے تو دوہرا اجر پائے گا۔‘‘ [3]
اس ضمن میں جناب حمید الدین فراہی صاحب بھی ’’احکام الاصول‘‘ میں لکھتے ہیں:
|