أيضا‘‘ [1]
علامہ محمد جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اعلم أن المتواتر ما نقله من يحصل العلم بصدقهم ضرورة بأن يكونوا جمعا لا يمكن تواطؤهم علي الكذب عن مثلهم من أوله إلي آخره‘‘ [2]
شیخ عبدالغفار حسن رحمانی صاحب فرماتے ہیں:
’’خبر متواتر جس کے راوی ہر دور میں اتنے زیادہ رہے ہوں کہ ان کا جھوٹ پر متفق ہو جانا عادتاً ناممکن ہو۔‘‘ [3]
ڈاکٹر محمود طحان فرماتے ہیں:
’’متواتر اس حدیث کو کہتے ہیں جسے ہر دور میں اتنی بڑی تعداد نے روایت کیا ہو جس کا کذب بیانی پر متفق ہو جانا محال نظر آتا ہو۔ اس اصطلاحی تعریف کا مفہوم یہ ہے کہ اس حدیث یا خبر کی سند یعنی سلسلہ روایت کے ہر طبقے یا مرحلے میں راویوں کی اتنی بڑی تعداد ہو کہ عقل کے نزدیک ان سب کا اس حدیث یا خبر کو گھڑنے پر متفق ہو جانا عادتاً محال ہو۔‘‘ [4]
شیخ عزی الدین بلیق فرماتے ہیں:
’’وهو ما رواه جمع عن جمع يستحيل في العادة تواطؤهم علي الكذب من أول السند إلي منتهاه --- علي أن لا يختل هذا الجمع في طبقة من طبقات السند‘‘ [5]
یعنی ’’وہ روایت جسے جمع عن جمع روایت کیا گیا ہو اور سلسلہ سند میں از اول تا آخر ان سب کا جھوٹ پر متفق ہو جانا عادتاً محال ہو اور طبقات سند میں سے کوئی طبقہ بھی اس جمع سے خالی نہ ہو۔‘‘
جناب عبدالرحمان بن عبیداللہ رحمانی صاحب فرماتے ہیں:
’’اصطلاحاً متواتر وہ روایت ہے جس کو ہم سے کثیر جماعت نے نقل کیا ہو اور عقل ان سب کا باتفاق جھوٹ بولنا اباء کرتی ہو، نیز ان کی خبر مشاہدات یا مسموعات میں سے کسی محسوس شئ سے متعلق ہو مثلاً یہ کہا جائے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا فرماتے سنا۔‘‘ [6]
اور پروفیسر مصطفیٰ اعظمی اپنے ایک مضمون “Hadith Rules for Acceptance &
|