Maktaba Wahhabi

158 - 360
اتنے کثیر افراد سے اس طرح پر مروی ہو تو یہ چیز قطعی طور پر اس کے صدق پر دلالت کرتی ہے، لہٰذا اس خبر سے ضرورتاً وقوع العلم اوجب ہے۔‘‘ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’رواية المجموع عن المجموع من ابتدائه إلي انتهائه في كل عصر‘‘ [1] حافظ عراقی رحمہ اللہ، امام حاکم، ابن حزم اور ابن عبدالبر رحمہم اللہ سے ناقل ہیں: ’’وهو الخبر الذي ينقله عدد يحصل العلم بصدقهم ضرورة، وعبر عنه غير واحد بقوله: عدد يستحيل تواطأهم علي الكذب ولا بد من وجود ذلك في رواته من أوله إلي منتهاه، و إلي ذلك أشرت بقولي في طبقاته‘‘ [2] امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’هو ما يكون مستقرا في جميع طبقاته أنه من البتداء إلي الانتهاء ورد عن جماعة غير محصورين في عدد معين ولا صفة مخصوصة بل بحيث يرتقون إلي حد تحيل العادة معه تواطأهم علي الكذب أو وقوع الغلط منهم اتفاقا من غير القصد‘‘ [3] علامہ سرخسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’متواتر کی تعریف یہ ہے کہ اسے اتنے کثیر التعداد لوگوں نے نقل کیا ہو کہ اتنے بہت سے آدمیوں اور مختلف علاقوں کے رہنے والے لوگوں کے کسی جھوٹی بات پر متفق ہو جانے کا تصور نہ کیا جا سکتا ہو اور ان کی یہ کثرت ہمارے زمانے سے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک متصلاً ہر دور میں پائی جاتی ہو۔ نمازوں کی تعداد اور نماز کی رکعات کی تعداد اور زکوۃ اور خون بہا کی مقداریں اور ایسی ہی دوسری خبریں اس کی مثالیں ہیں – پس جب مختلف علاقوں کے رہنے والے راویوں کی کثرت تعداد کو دیکھتے ہوئے تہمت اختراع کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی تو اس طرح کی خبر گویا ایسی ہے جیسے کہ ہم خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو سن رہے ہیں اور یہ چیز جمہور فقہاء کے نزدیک موجب علم یقین ہے۔‘‘ [4] علامہ ابن حنبلی حنفی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ’’ما رواه عن استناد إلي الحس دون العقل الصرف عدد أ حالت العادة تواطأهم علي الكذب فقط، أورووه عن مثلهم من الابتداء إلي الانتهاء و مستند رواية منتهاهم الحس
Flag Counter