کے نزدیک ایسا شخص بدعتی کہلاتا ہے۔ چنانچہ علامہ شاطبی رحمہ اللہ ایک مقام پر فرماتے ہیں:
’’سنت کا اطلاق بدعت کے مقابلہ میں بھی کیا جاتا ہے، چنانچہ اگر کوئی عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے موافق ہو تو علماء کہتے ہیں کہ فلاں چیز سنت ہے خواہ اس کی نص کتاب اللہ میں موجود ہو یا نہ ہو۔ اسی طرح اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے خلاف کوئی عمل کیا جائے تو کہتے ہیں کہ فلاں کام بدعت ہے۔ لہٰذا اس لحاظ سے لفظ سنت کا اطلاق صاحب شریعت کے عمل سے عبارت ہے۔‘‘ [1]
بعض علماء کے نزدیک ’’سنت‘‘ کا اطلاق خلفائے راشدین اور صحابہ کے اعمال پر بھی ہوتا ہے، خواہ کتاب و سنت میں ان کا وجود نہ بھی ہو، بلکہ وہ اعمال مصالح مرسلہ، استحسان، اجتہاد اور اجماع کی قبیل سے ہی ہوں، چنانچہ شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’سنت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ بعض کے خیال میں سنت کے لفظ سے سنت صحابہ اور سنت خلفائے راشدین بھی مراد ہو سکتی ہے کیونکہ ان پر بھی سنت کا اطلاق ہو سکتا ہے۔‘‘ [2]
ایسے اعمال صحابہ کی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جو صحاح ستہ کے علاوہ مؤطا امام مالک، المستدرک علی الصحیحین للحاکم، المصنف لعبد الرزاق، السنن الکبریٰ للبیہقی، تاریخ عمر لابن الجوزی، تاریخ المدینہ المنورۃ لابن شبہ، الاتقان للسیوطی، الطبقات الکبریٰ لابن سعد، الأعلام للزرکلی، جامع الأصول لابن الأثیر، حلیۃ الأولیاء لأبی نعیم، مصنف ابن أبی شیبہ، الاعتصام للشاطبی اور تلخیص الحبیر لابن حجر عسقلانی وغیرہ میں جابجا مذکور ہیں لیکن بخوف طوالت ہم ان کے تذکرہ کو ترک کرتے ہیں۔
خلفائے راشدین اور صحابہ کے عمل پر ’’سنت‘‘ کے اطلاق کی دلیل بھی یہ حدیث نبوی ہے: ’’ عليكم بسُنَّتي وسُنَّةِ الخُلَفاءِ الرَّاشِدينَ المَهْدِيِّينَ،۔۔الخ‘‘
امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فقد أضاف صلي اللّٰه عليه وسلم السنۃ إلیھم إضافتھا إلی نفسہ‘‘ [3]
اور جناب صہیب حسن صاحب ’’سنت‘‘ کی تعریف یوں بیان فرماتے ہیں:
“To the traditionists, the word Sunnah applies to the practical application of shari,a in the time of Prophet and the four caliphs after him.” (criticism of Hadith Amoung Muslims, p. 32).
میں کہتا ہوں کہ جمہور محدثین کے نزدیک ’’سنت‘‘ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال، تقریرات، آپ
|