Maktaba Wahhabi

133 - 360
ڈاکٹر محمود الطحان لکھتے ہیں: ’’اصطلاح میں ہر اس قول، فعل، تقریر اور صفت کو (حدیث) کہتے ہیں جس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی جاتی ہو۔‘‘ [1] شیخ عز الدین بلیق فرماتے ہیں: ’’وهو كل ما نقل إلينا صحيحا من قول النبي صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘ [2] جناب محمد عبدالرشید نعمانی صاحب ایک مقام پر لکھتے ہیں: ’’—آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ حقیقت میں قرآن مجید کی قولی اور عملی تفسیر ہے اور آپ کے ان ہی اقوال، اعمال اور احوال کا نام حدیث ہے۔ لفظ حدیث عربی زبان میں وہی مفہوم رکھتا ہے جو ہم اردو میں گفتگو، کلام یا بات سے مراد لیتے ہیں۔ چونکہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام گفتگو اور بات کے ذریعہ پیامِ الٰہی کو لوگوں تک پہنچاتے، اپنی تقریر اور بیان سے کتاب اللہ کی شرح کرتے اور خود اس پر عمل کر کے اس کو دکھلاتے تھے، اسی طرح جو چیزیں آپ کے سامنے ہوتیں اور آپ ان کو دیکھ کر یا سن کو خاموش رہتے تو اسے بھی جزء دین سمجھا جاتا تھا، کیونکہ اگر وہ امور منشأ دین کے منافی ہوتے تو آپ یقیناً ان کی اصلاح کرتے یا منع فرما دیتے۔ لہٰذا ان سب کے مجموعہ کا نام احادیث قرار پایا۔‘‘ [3] آں موصوف مزید فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، اعمال اور احوال کو حدیث سے تعبیر کرنا خود ساختہ اصطلاح نہیں بلکہ خود قرآن کریم ہی سے مستنبط ہے۔ قرآن کریم میں دین کو نعمت فرمایا ہے اور اس نعمت کی نشر و اشاعت کو تحدیث سے تعبیر کیا ہے، چنانچہ ارشاد ہے: [وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللّٰه عَلَيْكُمْ وَمَا أَنزَلَ عَلَيْكُم مِّنَ الْكِتَابِ وَالْحِكْمَةِ يَعِظُكُم بِهِ](البقرۃ 3۔ 29) ’’اور یاد کرو اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو اور جو تم پر کتاب اور حکمت کو نازل فرمایا کہ تم کو اس کے ذریعہ نصیحت فرمائے‘‘ اور تکمیل دین کے سلسلہ میں فرمایا ہے: [الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي](المائدہ ع: 1) ’’آج کے دن تمہارے لئے تمہارے دین کو میں نے کامل کر دیا اور میں نے تم پر اپنی نعمت تمام کر دی۔‘‘ دیکھئے ان دونوں آیتوں میں قرآن حکیم نے دین کو نعمت کہا ہے اور سورۃ الضحیٰ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی نعمت کے بیان کرنے کا ان الفاظ میں حکم دیا ہے: [وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ]’’اور اپنے رب کی نعمت کو بیان کیجئے—‘‘ بس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اسی تحدیث نعمت کو حدیث کہتے ہیں۔ یہی نہیں انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کے اقوال، اعمال اور احوال کے لئے خود قرآن مجید میں بھی متعدد مقامات پر حدیث ہی کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، چنانچہ سورۃ الذاریات میں حضرت ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام کا تذکرہ اس طرح شروع ہوتا ہے: [هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ](الذاریات ع-2) ’’اور حضرت موسیٰ علی نبینا و علیہ الصلاۃ والتسلیم کے
Flag Counter