امام تقی الدین ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنے بعض فتاویٰ میں فرماتے ہیں:
’’الحديث النبوي: هو عند الإطلاق ينصرف إلي ما حدث به عنه صلي اللّٰه عليه وسلم بعد النبوة، من قوله و فعله و إقراره، فإن سنته ثبتت من هذه الوجوه الثلاثة۔ فما قاله إن كان خبراً وجب تصديقه به و إن كان شريعاً إيجابا أو تحريما أو إباحه وجب اتباعه فيه، فإن الآيات الدالة علي نبوة الأنبياء دلت علي أنهم معصومون فيما يخبرون به عن اللّٰه عزوجل فلا يكون خبرهم إلا حقا وهذا معني النبوة وهو يتضمن أن اللّٰه ينبئه بالغيب و أنه ينبئ الناس بالغيب، والرسول مأمور بدعوة الخلق و تبليغهم رسالات ربه‘‘ [1]
شیخ محمد جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’علم حدیث کا مقصود ایسی چیز کی طلب ہے جس سے دینی امور پر استدلال کیا جاتا ہو اور یہ چیز آپ کا قول یا فعل یا تقریر ہے۔ [2] – حدیث میں قبل از نبوت سیرت سے متعلق بعض اخبار بھی داخل ہیں مثلاً غار حرا میں آپ کی خلوت نشینی، حسن سیرت، کرائم الأخلاق، محاسن افعال، حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا یہ قول: ’’كلا والله! لا يخزيك اللّٰه إنك لتصل الرحم و تحمل الكل و تقري الضيف و تكسب المعدوم و تعين علي نوائب الحق‘‘ آپ کا اُمی ہونا، آپ کا صدق و امانت کے لئے معروف ہونا یا اسی طرح کی وہ تمام چیزیں جو آپ کے احوال، آپ کی نبوت اور صداقت پر دلالت کرتی ہوں الخ۔‘‘ [3]
علامہ طیبی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابی یا تابعی کے قول، فعل اور تقریر سے زیادہ عام ہے۔‘‘ [4]
اور شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جمہور محدثین کی اصطلاح میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کو حدیث کہا جاتا ہے۔ اسی طرح صحابی اور تابعی کے قول، فعل اور تقریر پر بھی حدیث کا اطلاق ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے حدیث کو مرفوع اور موقوف تک ہی مخصوص رکھا ہے۔‘‘ ([5]،[6])
علمائے متأخرین میں سے مولانا عبدالغفار حسن رحمانی فرماتے ہیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، فعل اور تقریر کا نام حدیث ہے۔‘‘ [7]
|