اس کو رد کرے تو وہ کافر ہے۔‘‘
امام ابن حزم اندلسی رحمہ اللہ آیت: [وَمَا ٱخْتَلَفْتُمْ فِيهِ مِن شَىْءٍ فَحُكْمُهُۥٓ إِلَى ٱللَّهِ][1] کے تحت لکھتے ہیں:
’’پس ہم نے پایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کی طرف لوٹنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا ہے لہٰذا کسی مسلمان کے لئے جو توحید کا اقرار کرتا ہو اس بات کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں کہ تنازعہ کے وقت قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے علاوہ کسی اور طرف رجوع کرے اور نہ اس بات کی گنجائش ہے کہ جو کچھ وہ ان میں پائے اس کی خلاف ورزی کرے کیوں کہ اگر اس نے اپنے اوپر حجت قائم ہونے کے بعد ایسا کیا تو وہ فاسق ہے اور جس شخص نے ان دونوں چیزوں کے حکم سے خروج کو حلال جانتے ہوئے یا ان دونوں کے علاوہ کسی اور کی اطاعت کو واجب جانتے ہوئے ایسا کیا تو ہمارے نزدیک بلاشبہ وہ کافر ہے۔
امام محمد بن نصر مروزی نے ذکر کیا ہے کہ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ جس شخص تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث پہنچے اور وہ اس کی صحت کا اقراری ہو پھر اسے بغیر تقیہ کے رد کرے تو وہ کافر ہے۔
اس بارے میں ہم امام اسحاق کے اس قول سے احتجاج نہیں کرتے، اس کو تو ہم نے محض اس لئے نقل کیا ہے تاکہ کوئی جاہل یہ گمان نہ کر بیٹھے کہ ہم اس قول کے بارے میں منفرد رائے رکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے خلاف فعل کو جو شخص حلال سمجھے اس کی تکفیر پر ہم اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے استدلال کرتے ہیں جس میں اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے: [فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُونَ حَتَّىٰ يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوا فِىٓ أَنفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُواتَسْلِيمًا][2]
آں رحمہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:
’’اور جس شخص کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی خبر آئے اور وہ اقرار کرے کہ وہ خبر صحیح ہے یا اس کے مثل حجت قائم ہے یا اس جیسی خبر کسی دوسرے مقام پر ثابت ہے پھر اس مقام پر اس کے مثل سے حجت پکڑنے کو قیاس یا فلاں اور فلاں کے قول کی بناء پر ترک کر دے تو اس نے اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے خلاف کام کیا، پس مصیبت میں جا گرنے اور دردناک عذاب کا مستحق ہے۔‘‘ [3]
شرح عقیدہ طحاویہ میں ہے:
’’اس لئے ضروری ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکمل طور پر تسلیم کیا جائے۔ آپ کے حکم کی پیروی کی جائے، آپ کی حدیث کی تصدیق کی جائے، کسی باطل خیال کو معقول سمجھ کر حدیث کے مقابلہ میں پیش نہ کیا جائے، اسے شک و شبہ کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے، لوگوں کی رائے کو اس پر مقدم نہ کیا جائے، تنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم مانا جائے اور آپ
|