Maktaba Wahhabi

125 - 360
وَيُزَكِّيهِمْ ۚ إِنَّكَ أَنتَ ٱلْعَزِيزُ ٱلْحَكِيمُ]-- [1] یعنی ’’اے ہمارے رب اس جماعت کے اندر انہی میں کا ایک رسول مبعوث فرما جو ان لوگوں کو آپ کی آیات پڑھ کر سنائے اور ان کو آسمانی کتاب اور حکمت (سنت) کی تعلیم دے اور ان کو پاک کر دے، بےشک تو عزیز اور بڑی حکمت والا ہے۔‘‘ (اس آیت کے بعد امام شافعی رحمہ اللہ نے چند دوسری آیات بھی پیش کی ہیں، پھر فرماتے ہیں: ) پس اللہ نے ان آیات میں جس ’’کتاب‘‘ کا ذکر فرمایا ہے، وہ قرآن کریم ہے اور جس ’’حکمت‘‘ کا ذکر فرمایا ہے تو میں نے قرآن کے ان اہل علم حضرات سے سنا ہے کہ جنہیں میں پسند کرتا ہوں کہ اس سے مراد ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔‘‘ (پھر آگے چل کر فرماتے ہیں: ) اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی اطاعت کو فرض اور تمام انسانوں پر ان کے حکم کی اتباع کو حتمی قرار دیا ہے – یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو کتاب و حکمت کی تعلیم فرما کر دراصل ان پر اپنے احسان کا ذکر فرمایا ہے، لہٰذا کسی کے لئے یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ یہاں ’’حکمت‘‘ سے مراد ’’سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے علاوہ کوئی دوسری چیز ہے۔‘‘ [2] حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مَنْ بَلَغه عَنِّيْ حَدِيْث فَكَذب بِهٖ فَقَدْ كَذب ثَلَاثَة،اللهٗ وَ رَسُوْلُهٗ وَالَّذِيّ حَدَث بِهٖ‘‘ [3] ’’جس شخص کے پاس میری کوئی حدیث پہنچی اور اس نے اس کو جھٹلایا تو گویا اس نے اللہ تعالیٰ، اس کے رسول اور اس حدیث کے راوی تینوں کی تکذیب کی۔‘‘ علامہ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس کی سند میں راوی میسور بن محفوظ ہے جس کا تذکرہ امام ابن ابی حاتم نے کیا ہے لیکن اس کے متعلق نہ کوئی جرح نقل کی ہے اور نہ ہی تعدیل۔‘‘ [4] امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ: ’’من رد حديث رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم فهو علي شفا هلكة‘‘[5]’’جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو رد کرتا ہے وہ ہلاکت کے دہانے پر جا پہنچا۔‘‘ امام محمد بن نصر المروزی رحمہ اللہ (294ھ) نے بیان کیا ہے امام اسحاق بن ابراہیم المعروف بابن راہویہ رحمہ اللہ (م 238ھ) فرمایا کرتے تھے: ’’من بلغه عن رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم خبر يقربصحته ثم رده بغير تقية فهو كافر‘‘ [6] ’’جس شخص تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث پہنچے اور وہ اس کی صحت کا اقرار بھی کرے پھر بغیر تقیہ کے
Flag Counter